1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنیاد پرست برطانوی مسلمان مبلغ پر دہشت گردی کا مقدمہ

سمیرا شاکلے، عابد حسین11 جنوری 2016

انجم چوہدری اور اُن کے ساتھ محمد میزان الرحمان کو برطانیہ میں دہشت گردی کے الزامات کا سامنا ہے۔ اُن کے مقدمے کی کارروائی کی ابتدائی سماعت بارہ جنوری سے شروع کیے جانے کا امکان ہے۔

https://p.dw.com/p/1HbLE
انجم چوہدریتصویر: Reuters/Tal Cohen

انجم چوہدری پر الزام ہے کہ انہوں نے انتیس جون 2014ء سے لے کر سولہ مارچ سن 2015 تک سوشل میڈیا پر عراق اور شام میں سرگرم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے وجود کو جائز قرار دیتے ہوئے مختلف ملکوں کے مسلمانوں کو تلقین اور نصیحت کی کہ وہ عراق اور شام میں قائم ہونے والی خلافت کی اطاعت کرتے ہوئے سفر اختیار کریں اور وہاں پہنچ کر اُس کی کارروائیوں میں عملی طور پر شریک ہوں۔

گزشتہ برس دہشت گردی کے الزامات کے تناظر میں انجم چوہدری نے انہیں سیاسی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مسلمانوں کی آواز کو خاموش کرنے کی ایک کوشش ہے اور وہ عدالت میں لگائے گئے الزامات کا دفاع کریں گے۔ اُن کے مقدمے کی ابتدائی سماعت کے لیے گیارہ جنوری کی تاریخ مقرر ہے۔ اِس تاریخ پر عدالت اُن کی ضمانت کی درخواست پر بھی فیصلہ دے سکتی ہے۔ اِس مقدمے میں وکیلِ استغاثہ جیکب ہیلم ہیں اور انجم چوہدری کا دفاع بلینے غرائلے کر رہی ہیں۔

برمنگھم یونیورسٹی کے ڈاکٹر عمران اعوان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ انجم چوہدری کو دہشت گردی کے جرم کا سامنا ہے جب کہ وہ کئی برسوں سے کئی مذہب سے جڑے تنازعات کا شکار رہیں ہیں۔ اعوان کا کہنا ہے کہ چوہدری کالعدم قرار دی گئی انتہا پسند تنظیم المہاجرون کے اساسی ممبر تھے اور بعد میں اِس تنظیم سے پیدا ہونے والی مختلف شاخوں سے بھی وابستہ رہے۔ خلافِ قانون قرار دی گئی المہاجرون کی شاخوں میں ’اسلام فار یوُکے‘ (Islam4UK) اور ’مسلمان کروسیڈرز کے سامنے‘ خاص طور پر نمایاں تھیں۔ المہاجرون نامی تنظیم کو سن 1986 میں انجم چوہدری اور عمر بکری محمد نے قائم کیا تھا۔ عمر بکری آج کل لبنان میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

Anjem Choudary
انجم چوہدری کے ہمراہ اُن کے ایک حامی پوسٹر اٹھائے ہوئےتصویر: Reuters/Luke MacGregor

ایک غیرسرکاری تنظیم ’ہوپ ناٹ ہیٹ‘ (امید نا کہ نفرت) کے چیف ایگزیکٹو نِک لولز کا کہنا ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران چوہدری کا مذہبی رویہ مسلسل تبدیلیوں سے عبارت ہے اور وہ مختلف ملکوں میں قائم اپنی حامی تنظیموں کے ذریعے اپنے تشخص کو بین الاقوامی بنانے کی کوشش میں ہیں۔ اسی مناسبت سے برمنگھم یونیورسٹی کے ڈاکٹر عمران اعران کا خیال ہے کہ ٹیلی وژن کے مختلف پروگراموں میں انہیں اُن کے مختلف بیانات کا مذاق اڑانے کے ساتھ ساتھ مباحثوں میں اُن کو سخت جوابی دلائل کے ذریعے رگیدا بھی گیا اور جب وہ برمنگھم میں اپنی مذہبی تحریک کے سلسلے میں تقریر کرنے کے لیے پہنچے تھے تو مقامی مسلم کمیونٹی نے ان کو زبردستی اسٹیج سے اتار دیا تھا۔ اعوان کے خیال میں ٹویٹر پر اُن کو اکتیس ہزار افراد کی بظاہر حمایت حاصل ہے اور یہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ سوشل میڈیا پر انجم چوہدری کی حمایت اور مخالفت میں کئی گروپ سرگرم ہیں۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انجم چوہدری کئی ایسے افراد کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں جو انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کے تحت مجرم قرار دیے جا چکے ہیں۔ ان میں خاص طور پر مائیکل عدی بولاجو بھی شامل ہے جو ایک برطانوی فوج لی رِگبی کا قاتل ہے اور اب پینتالیس برس کی سزا کاٹ رہا ہے۔ اسی طرح حال ہی میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی جانب سے جاری ہونے والی ویڈیو میں جو شخص بیان جاری کر رہا تھا، اُس کی شناخت ابُو رومائسہ کے نام سے ہوئی ہے اور وہ بھی انجم چوہدری کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

چوہدری نے گزشتہ برسوں میں کئی سخت عقیدے کی حامل مذہبی تنظیمیں قائم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اُن کی بنائی ہوئی ایک تنظیم کو سن 2011 میں خلاف قانون قرار دے دیا گیا تھا۔ اِس تنظیم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے برطانوی وزیر داخلہ تھریسا مے کا کہنا تھا کہ یہ ماضی میں ممنوع قرار دی جانے والی تنظیموں کا ایک نئے نام کے ساتھ تسلسل ہے۔ صومالیہ میں دہشت گرد تنظیم الشباب نے اکتوبر سن 2013 سے سارے برطانیہ میں انجم چوہدری کو رابطہ کار مقرر کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اسی طرح وہ شمالی عراق میں القاعدہ سے وابستہ دہشت گرد تنظیم انصار السلام سے بھی وابستہ بتائے جاتے ہیں۔

انجم چوہدری برطانیہ میں پاکستانی والدین کے ہاں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر بننے کی کوشش کی لیکن پہلے ہی سال فیل ہو گئے اور پھر ہمت کر کے وہ وکیل بننے میں کامیاب رہے۔