بنگلہ دیش میں دو کروڑ انسان زہریلا پانی پینے پر مجبور
6 اپریل 2016انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت ملک میں ہر سال 43 ہزار افراد کی موت کے سبب بننے والے اس مسئلے سے نمٹنے میں اب تک ناکام رہی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اب تک حکومت نے تمام افراد تک صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زہریلے پانی کی وجہ سے زیادہ تر ہلاکتیں بنگلہ دیش کے دیہی علاقوں میں ہوتی ہیں۔
بنگلہ دیش میں اس مسئلے کا آغاز 1970ء کی دہائی میں اس وقت ہوا تھا، جب حکومت نے دیہات میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے کئی ملین کنویں کھودے تھے، تاہم اس وقت حکومت کو یہ معلوم نہیں تھا کہ بنگلہ دیش کی سرزمین قدرتی طور پر آرسینک جیسے خطرناک اور زہریلے مادے کی حامل ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے محقق رچرڈ پیئرہاؤس نے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ’’بنگلہ دیش نے اس سلسلے میں بنیادی اقدامات اب تک نہیں کیے، تاکہ غریب دیہاتیوں کو دستیاب پانی کے کنوؤں میں سے آرسینک کو الگ کرنے اور صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’اس بڑے سانحے کے اب تک موجود ہونے کا صاف مطلب خراب حکمرانی ہے۔‘‘
اے ایف پی کے مطابق بنگلہ دیش نے زیادہ پانی حاصل کرنے کے لیے گہرے کنویں کھودے جب کہ بنگلہ دیش کی زمین میں گہرائی میں آرسینک کی بہت کثیر مقدار پائی جاتی ہے۔ مگر ایچ آر ڈبلیو کے مطابق مقامی سیاست دان اس مسئلے کو جاننے کے باوجود اپنے حامیوں کے سیاسی فائدے کے لیے مزید ایسے ہی کنوئیں کھدوا کھدوا کر دے رہے ہیں۔ اس طرح جن علاقوں میں یہ مسائل نہیں بھی تھے، اب وہاں بھی یہ مسئلے پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اس مسئلے کو ختم کرنے کے لیے اب تک کیے گئے اقدامات خاصے محدود رہے ہیں۔
پیئرہاؤس کے مطابق، ’’اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس وقت جو صورت حال ہے، وہی صورت حال 15 برس قبل بھی تھی، یعنی اس میں کسی قسم کی کوئی بہتری نہیں آئی۔‘‘
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ برائے صحت بنگلہ دیش میں پانی میں آرسینک یا سنکھیے کی موجودگی کے مسئلے کو ’تاریخ میں سب سے بڑی تعداد میں انسانوں کو زہر دینے‘ کی صورت حال سے تعبیر کرتا ہے۔‘‘