1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش سیاسی بحران کے دہانے پر

Zaman, Qurratulain12 اکتوبر 2008

بنگلہ دیش کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں عوامی لیگ اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے دسمبر میں ہونے والے قومی انتخابات کے بائیکاٹ کی دھمکی دی ہے۔

https://p.dw.com/p/FYGz
تصویر: AP/DW

دونوں بڑی جماعتوں کا مطالبہ ہےکہ پارٹی رہنماوں کے خلافقائم کئے گئے سیاسی مقدمات ختم کئے جائیں اور انہیں مکمل آزادی دی جائے۔ علاوہ ازیں ملک میں نافذ ایمرجنسی کو بھی ختم کیا جائے۔ عوامی لیگ کی شیخ حسینہ اور بی این پی کی خالدہ ضیاء تقریباً ایک سال جیل میں گزارنے کے بعد ضمانت پر رہا ہوئی ہیں ۔ تا ہم ان کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال، بد عنوانی اور مالی خرد برد اور کے کیسز ابھی عدالت میں چل رہے ہیں۔

تنویر مکمل بنگلہ دیشی مصنف اور ایکٹیوسٹ فلم میکر ہیںے ان کا کہنا ہے :’’یہ ایک سیاسی داؤ پیچ ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لیے شاید دسمبر ٹھیک نہیں ہے انہیں اپنی سیاسی مہم کے لیے اور وقت درکار ہوگا خصوصاً بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کو۔لیکن انتخابات تو ضرور ہونے چاہیے۔ اور ان سیاسی جماعتوں کو اس سیاسی عمل کا حصہ بننا ہوگا۔‘‘


Arafat Rahman Coco
خالدہ ضیاء کے چھوٹے بیٹے عرافات رحمان کو پولیس عدالت کے سامنے پیش کرنے لے جار ہی ہے۔تصویر: AP

سابقہ وزیر اعظم خالدہ ضیاء کی جماعت BNPکا کہنا ہے کہ وہ اپنے مطالبات فوج کی حمایت یافتہ عبوری حکومت کو جلد ہی پیش کرے گی۔ دوسری طرف شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ نے ایک علیحدہ بیان میں کہا ہے کہ ان کی پارٹی سربراہ کو وطن واپسی پر مکمل آزادی دی جائے ۔ سابقہ وزیر اعظم شیخ حسینہ رواں سال جون میں پیرول پر رہائی کے بعد امریکہ میں علاج کروا رہی ہیں۔ واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں گزشتہ سال جنوری میں ایمرجنسی اس وقت نافذ ہوئی تھی جب فوج کی حمایت یافتہ حکومت نے انتخاب ملتوی کر دیئے تھے۔حکومت نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ ملک سے کرپشن ختم کردے گی اور اسی سلسلے میں ڈیڑھ سو سے زیادہ سیاست دانوں کو گرفتار کیا گیا اور تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ موجودہ حکومت کے کردار کے حوالے سے تنویر مکمل کہتے ہیں:’’ بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت نے کئی اجھے کام بھی کیے ہیں لیکن اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ موجودہ حکومت کسی سیاسی عمل سے گزر کر نہیں آئی ہے اور نہ ہی اسے عوام نے منتخب کیا ہے۔ ان کے لیے بہتر ہے کہ وہ جلد اپنے وعدے کو پورا کرتے ہوئے جمہوریت بحال کرے۔‘‘

مقامی میڈیا کے مطابق حکومت بضد ہے کہ نئے انتخابات ایمرجنسی کے دوران ہی کرائے جائے گے اور ان رہنماؤں پر چلنے والے مقدمات کو خارج نہیں کیا جائے گا۔ تنویر مکمل کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں کسی ڈیل کے بغیر انتخابات میں حصہ لیتی ہوئی نظر نہیں آتیں۔ ’’موجودہ حکومت کو ان کو ماننا پڑے گا کیونکہ ان پر عالمی طاقتوں کا بہت پریشر ہے۔ ‘‘مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی شمولیت انتخابات میں بہت اہم ہے اور کسی ایک جماعت کا بھی انتخابات میں حصہ نہ لینا انہیں غیر موثر بنا دے گا۔