1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش اور ماحولیات: سیلابوں سے نمٹنے کی کوشش

8 جولائی 2010

بنگلہ دیش ، جنوبی ایشیا کا یہ ملک انتہائی پسماندہ ہے جہاں انتہائی کم کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ریکارڈ کیا گیا ہے۔ غربت اور جغرافیائی مسائل کے حوالے سے بنگلہ دیش کو قدرتی آفات کے خطرات کا بھی سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/OE1a
حوراز علاقے میں سیلابی پانیتصویر: Sophie Tarr

ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے مثبت پیش رفت کا دارو مدار امکانی طور پر مالیات پر ہو سکتا ہے۔ ترقی پذیر ملکوں کو کلائمیٹ چینج کی مد میں اربوں ڈالر کی ضرورت ہو سکتی ہے اور ان رقوم کے مناسب استعمال سے ہی گرم ہوتے ماحول کو بہتر بنایا جا سکے گا۔ امیر ملک اس نکتے کی اہمیت سے واقف ہیں اور اسی باعث یورپی یونین نے ابھی سے سات ارب یورو مختص کئے ہیں۔ غریب ملکوں کو یقین دلانے کے لئے یہ شاید ایک اہم اور خوش آئند اقدام ہے۔ اس مناسبت سے احساس کیا جا رہا ہے کہ ان ملکوں میں کلائمیٹ سے متعلق کوئی بحران پیدا نہیں ہوگا۔ اس پس منظر میں بنگلہ دیش کی مثال اہم ہے۔

Medizinteam
سیلاب سے متاثرین کو ادویات کی فراہمیتصویر: CARE

ڈوئچے ویلے کی خاتون صحافی صوفی ٹار نے اس مناسبت سے حال ہی میں بنگلہ دیش کے ایک دورے کے دوران مختلف لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور وہاں کی صورت حال کا ذاتی طور پر مشاہدہ بھی کیا۔ ایک کشتی میں سفر کے دوران ایک مسافر نے انہیں بتایا:

’’بنگلہ دیش کو بارشیں کنٹرول کرتی ہیں۔ لوگ صرف دو موسموں کی بات کرتے ہیں۔ خشک اور گیلے موسم کی۔ بارشیں نہ ہوں تو قحط سالی کا خطرہ ہوتا ہے۔ زراعت کا دارومدار بارشوں پر ہے۔ بارشوں کی وجہ سے جھیلیں مزید پھیل جاتی ہیں۔ بعض مقامات پر پانی مہینوں کھڑا رہتا ہے۔‘‘

بنگلہ دیش میں کئی علاقے وہاں جمع رہنے والے پانی کی وجہ سے مشہور ہیں۔ ان میں Hoars کے علاقے کا گاؤں نواب پور بھی ہے۔ یہ گاؤں بنگلہ دیش کے انتہائی شمال مشرق میں واقع ہے۔ مرکزی زمینی پٹی سے یہ گاؤں سوا دو گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ یہ فاصلہ سیلابی پانی میں کشتی کے ذریعے سفر سے طے کیا جاتا ہے۔ دو ماہ پہلے تک اس گاؤں میں زمینی راستے سے پہنچا جا سکتا تھا۔ پھر شدید بارشوں کے بعد یہ گاؤں ایک جزیرہ بن گیا۔ سیلابی پانی نے بجلی اور ٹیلی فون کے کھمبوں سمیت بنیادی ڈھانچے کو بھی شدید طور پر متاثر کیا۔ نواب پور کے ایک رہائشی عبیدالرحمٰن کا کہنا ہے:

Überschwemmung in Bangladesch
سیلاب میں محفوظ مقام کی تلاشتصویر: AP

’’جب میں پرائمری کا طالب علم تھا تو پانی کی سطح خاصی کم ہوتی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ پانی کی سطح بلند ہوتی جا رہی ہے۔‘‘

چھبیس سالہ عبید الرحمٰن کی پیدائش نواب پور ہی میں ہوئی تھی۔ اس گاؤں میں سیلابی پانی عموماً جون جولائی میں آیا کرتا تھا لیکن اس سال ایسا مئی کے مہینے میں ہی ہو گیا۔ عبید الرحمٰن کا مزید کہنا تھا:

’’اس سال جب سیلاب آ یا تو تمام کھڑی فصلیں زیرآب آ گئی تھیں۔ ہمیں دوسرے علاقوں سے لوگوں کو بلانا پڑا تاکہ پانی سے چاول کے پودوں کو نکالا جا سکے۔جلد پانی آ جانےسے چاول کی کھڑی فصل کو نقصان پہنچتا ہے۔‘‘

اس علاقے کو بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے آفت زدہ قرار دیا جا چکا ہے۔ گاؤں کے بعض خاندان سیلابی پانی میں اپنا سب کچھ کھو چکے ہیں۔ لیکن وہ مایوس ہونے کے بجائے خوش ہیں۔

نواب پور میں ایک سو خاندان رہتے ہیں، جو پہلے ہی سے بہت پسماندہ ملک کا غریب ترین حصہ ہے۔ لوگوں کی یومیہ آمدن ایک ڈالر سے بھی کم ہے۔ سیلابوں کے باعث یہ گاؤں باقی ماندہ ملک سے کٹ کر رہ جاتا تھا۔ اس سال نواب پور کے مکینوں کو یورپ کی جانب سے مالی امداد موصول ہوئی ہے۔ اس امداد سے مقامی باشندے اس گاؤں کے جنوب کی جانب ایک حفاظتی دیوار کھڑی کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ یہ دیوار تین سے ساڑھے تین میٹر تک بلند ہے۔ جنوب کی جانب دیوار بنانے کی وجہ یہ ہے کہ اس جانب سے سیلابی پانی کا ریلہ زیادہ زوردار ہوتا ہے۔ اب اس گاؤں کی صورت حال بدل چکی ہے۔ کئی دوسرے بنگلہ دیشی دیہات کے مقابلے میں نواب پور اب ایک ’محفوظ جنت‘ بن چکا ہے۔

Bangladesh
سیلابی پانی میں مال مویشیتصویر: AP

تیس سالہ فیض الرحمٰن ان مقامی افراد میں شامل تھا، جو اس دیوار کی تعمیر میں پیش پیش تھے۔ اس کے خیال میں دیوار کی تعمیر کے مثبت اثرات ظاہر ہونا شروع ہوچکے ہیں۔ فیض الرحمٰن کا کہنا ہے:

’’نواب پور میں اب تبدیلی آ چکی ہے۔ ہمارے گاؤں میں اب سیلابی پانی کی جگہ زمین دکھائی دینے لگی ہے۔ ہمارے دوسرے دیہات کے ساتھ رابطے بھی بحال ہونے لگے ہیں۔‘‘

بنگلہ دیش میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے مرکز کی ڈائریکٹر دلربا حیدر کا کہنا ہے کہ حکومتی سطح پر ایسی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے گہرے اثرات سے عام لوگوں کو آگاہ کیا جائے اور ان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے۔ بنگلہ دیش میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید تر بارشوں کے باعث آنے والے سیلابوں کا تعین کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ کبھی کبھی تو شدید تر مون سون کے نتیجے میں ملک کا دو تہائی حصہ زیر آب آ جاتا ہے ۔ دریاؤں میں سیلابوں کا سبب نیپال اور بھارت میں بہت زیادہ بارشیں بھی بنتی ہیں کیونکہ بھارت اور نیپال سے گزرنے والے بہت سے دریا بنگلہ دیش سے ہو کر ہی خلیج بنگال میں گرتے ہیں۔ ڈھاکہ حکومت کو خدشہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث موسمی آفات مستقبل میں ملک کے ساحلی علاقوں اور دریاؤں کے کنارے آبادیوں سے لاکھوں شہریوں کی نقل مکانی کا سبب بن سکتی ہیں۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: مقبول ملک