بنگلہ دیشی عوام کی بڑی تعداد زہریلے پانی کا شکار
20 جون 2010یہ تحقیقی رپورٹ دارالحکومت ڈھاکہ کے ایک ضلع کے افراد کے تجزیے پر مبنی ہے۔ محققین کے مطابق یہ تحقیقی رپورٹ گزشتہ دس برسوں میں ڈھاکہ کے اس ضلع میں تقریبا بارہ ہزار افراد کے تجزیے اور طبی اعداد وشمار کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس ضلع میں تقریبا 20 فیصد افراد کی طبعی موت کے درپردہ، ان افراد میں اس آرسینک نامی زہریلے مادے کی زیادہ مقدار کی موجودگی تھی۔
عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے ، ’کرہء ارض پر اس سے قبل کسی خطے یا علاقے میں اتنے بڑے پیمانے پر کسی آبادی کو اس طرح زہریلے مادے سے متاثر ہوتے نہیں دیکھا گیا ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیش میں زہریلے پانی کے ذریعے انسانی صحت کے متاثر ہونے کا سلسلہ سن 70 کی دہائی میں بڑے پیمانے پر زمین سے پانی حاصل کرنے کے لئے نلکوں کے استعمال سے شروع ہوا۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ آرسینک عنصر اگر لمبے عرصے تک انسانی جسم میں موجود رہے، تو اس سے مثانے، گردوں، جلد اور پھیپھڑوں کا سرطان لاحق ہو سکتا ہے۔
اس تازہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیش میں 35 سے 77 ملین افراد ممکنہ طور پر 70 کی دہائی میں پانی کے حصول کے لئے نلکوں کے استعمال کی گمراہ کن ترویج کا شکار ہوئے۔
بنگلہ دیش کی زمین کی سطح پر قدرتی طور پر آرسینک کی مقدار زیادہ ہے اور وہاں پینے کا پانی حاصل کرنے کے لئے کم گہرے کنویں کھودے گئے تھے جبکہ نلکے اور ٹیوب ویل لگائے گئے تھے۔ سائنسدانوں نے مستقبل میں اس پانی کے صحت پر اثرات کے حوالے سے خطرناک نتائج کی بھی پیشن گوئی کی ہے۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ زمین سے پانی کا حصول خطرہ نہیں تھا بلکہ وہ طریقہ کار انتہائی غلط تھا، جس کے تحت یہ ٹیوب ویل اور نلکے لگائے گئے۔
اس رپورٹ کی تیاری میں ڈھاکہ کے ضلح آرائی ہزر میں 18 برس سے 75 برس تک کی عمروں کے گیارہ ہزار سات سو چھیالیس افراد کے خون اور پیشاب کے نمونے دو برسوں تک وقفے وقفے سے حاصل کئے جاتے رہے۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : عاطف بلوچ