بنگلہ دیشی خواتین اور ’سرفنگ‘ ۔ امکانات اور مشکلات
ملک چلانے سے لے کر ہوائی جہاز اڑانے تک، وہ کون سا کام ہے جو بنگلہ دیشی خواتین نہیں کرتیں۔ غربت اور سماجی اقدار کی وجہ سے اب بھی وہ بہت سے کام نہیں کر پاتیں، تاہم کاکس بازار میں خواتین اب ’سرفنگ‘ یا موج سواری کر رہی ہیں۔
پہلا ’قومی مقابلہ‘
کاکس بازار اپنے دل آویز ساحلِ سمندر کے لیے شہرت رکھتا ہے۔ یہ ’سرفنگ‘ یا موج سواری کے شوقین افراد کے لیے ایک بہترین مقام ہے۔ یہاں ایک سرفنگ اسکول بھی چلایا جاتا ہے جو نہ صرف یہ کہ مردوں کو بلکہ خواتین کو بھی سرفنگ کی تربیت دیتا ہے۔ اِمسال اپریل میں یہاں پر بنگلہ دیش سرفنگ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ایک ’قومی‘ سرفنگ مقابلے کا اہتمام ہوا جس میں ستر کھلاڑیوں، بہ شمول دس خواتین، نے حصہ لیا۔
بین الاقوامی سرفنگ
بنگلہ دیش میں سرفنگ کی بنیاد پہلی مرتبہ ایک امریکی تنظیم ’سرفنگ دا نیشن‘ نے رکھی تھی۔ یہ تنظیم سن دو ہزار تین سے لوگوں کو سرفنگ کی تربیت دے رہی ہے، خاص طور پر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو۔ کاکس بازار کے ’لائف سیوونگ سرفنگ کلب‘ کے ارکان اب ’اسٹریٹ کڈز‘ یا غیر تعلیم یاقتہ نہیں کہلاتے بلکہ انہیں باقاعدہ سرفرز کے طور جانا جاتا ہے۔
درست سمت
نئی پہچان ملنے کے بعد اس علاقے کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں متحرک ہو گئے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ وہ سرفنگ کرتے ہیں بلکہ ساحل کی صفائی اور ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کا کام بھی تن دہی سے کرتے ہیں۔ ’سرفنگ دا نیشن‘ بین الاقوامی ڈونرز کے ساتھ مل کر یہاں نوجوانوں کو انگریزی بھی سکھاتی ہے اور انہیں منشیات سے دور رہنے کی بھی تربیت دیتی ہے۔
ایک نئی زندگی
ریپا کی عمر صرف بارہ برس ہے۔ دو سال قبل وہ ساحل پر پانی کی بوتلیں، چِپس اور پھول بیچا کرتی تھی۔ اب وہ ایک چیمپئن ہے۔ نشینل سرفنگ کے خواتین کے مقابلے میں اس نے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ وہ اب پیسہ کما سکتی ہے اور اپنے گھر والوں کی معاونت بھی کرتی ہے۔ سرفنگ نے تو جیسے ریپا کی زندگی ہی بدل دی۔
ایک معاون کار کی کہانی
ریپا کا کہنا ہے، ’’مجھے کلب نے منتخب کیا اور جناب سفات نے میری تربیت کی۔‘‘ کلب کے صدر راشد عالم نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’اس علاقے کی لڑکیاں پانی، آلو کے چِپس اور ابلے ہوئے انڈے بیچا کرتی تھیں۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ یہ لڑکیاں سفنگ کی طرف آئیں۔‘‘
مالی امداد ضروری ہے
سفات رحمان کا کہنا ہے کہ کلب کی بقا کے لیے مالی امداد اب بھی ضروری ہے۔ ’’ہم سرفنگ کی اسکالرشپس کے لیے پیسے دیتے ہیں اور میں سرفنگ ملبوسات اور سرفنگ بورڈز کی بھی ضرورت رہتی ہے۔‘‘
خواتین کی حقوق
کاکس بازار کےلائف سیوونگ سرفنگ کلب کے صدر ارشع عالم کہتے ہیں کہ ان کے کلب کا نصب العین صرف سرفنگ نہیں بلکہ خواتین کو مزید با اختیار بنانا بھی ہے۔ ’’ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری کوششوں سے وہ سماج میں ایک بہتر مقام حاصل کر پائیں گی۔‘‘