1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بندوقیں، خدا اور رنجشیں: بیلجیم کے جہادیوں کا مرکز

آئی اے16 نومبر 2015

یورپ میں ہونے والے زیادہ تر جہادی حملوں کا تعلق کسی نہ کسی طرح بیلجیم کے علاقے مولن بَیک سے نکلتا ہے۔ بیلجیم کے دارالحکومت برسلز کا یہ مضافاتی علاقہ انتہاپسندی کا مرکز کیوں بنتا جا رہا ہے اور اسلحہ کیسے خریدا جاتا ہے؟

https://p.dw.com/p/1H6Zs
Belgien Brüssel Stadtteil Molenbeek nach Terroranschlägen in Paris
تصویر: Reuters/Y. Herman

تازہ اطلاعات کے مطابق بیلجیم کی پولیس نے برسلز کے مضافات میں واقع مولن بَیک میں سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ فرانس پر حملہ کرنے والے عسکریت پسندوں کے تانے بانے اسی علاقے سے مل رہے ہیں۔ گزشتہ روز اس علاقے کی میئر کا کہنا تھا کہ یہ علاقہ ’پرتشدد کارروائیاں کرنے والوں کے لیے زرخیز زمین بنتا جا رہا ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ عرب نژاد نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح بڑھتی جا رہی ہے اور یہ انتہاپسندی میں پناہ تلاش کر رہے ہیں۔

فرانس میں حملوں کے بعد مولن بیک کا علاقہ ایک مرتبہ پھر پولیس کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ بیلجین حکام اب یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ یہ علاقہ یورپ کے دوسرے شہروں سے مختلف کیوں ہے؟

تجزیہ کاروں کے مطابق ایسی تین بڑی وجوہات ہیں، جن کے باعث یہ علاقہ انتہاپسندوں کے لیے پرکشش ہے۔ حکام کے مطابق انتہاپسند اس بات سے آگاہ ہیں کہ اس علاقے میں رہتے ہوئے پولیس کی سخت نگرانی سے بچا جا سکتا ہے۔ سکیورٹی فورسز کو مقامی اختلافات کی وجہ سے بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ فرانسیسی اور فلیمش زبانیں بولنے والے افراد کے مابین ’تاریخی اختلافات‘ پائے جاتے ہیں اور اس علاقے میں دونوں زبانیں بولنے والے بستے ہیں۔ یہ علاقہ بنیاد پرست عرب مبلغین کا بھی مرکز ہے جبکہ وہاں ایسی استعمال شدہ خودکار رائفلوں کی بلیک مارکیٹ بھی پروان چڑھ رہی ہے، جیسی کہ پیرس حملوں میں استعمال کی گئیں۔

Belgien Brüssel Molenbeek Festnahme Verdächtiger
بیلجین پولیس مولن بَیک میں چھاپہ مار کارروائی کرتے ہوئے سات ملزمان کو گرفتار کر چکی ہےتصویر: Reuters/RTL

برسلز میں قائم ایک تھنک ٹینک سے وابستہ بلال بنیاچ کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’آپ پانچ سو سے ایک ہزار یورو تک کے بدلے آدھ گھنٹے کے اندر اندر کوئی نہ کوئی فوجی ہتھیار حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘

پیرس حملوں میں ملوث دو فرانسیسی شہری بیلجیم میں رہائش رکھے ہوئے تھے۔ حملے کے بعد سے بیلجین پولیس مولن بَیک میں چھاپہ مار کارروائی کرتے ہوئے سات ملزمان کو گرفتار کر چکی ہے۔

بیلجیم کے انتالیس سالہ اعتدال پسند وزیر اعظم چارلس مائیکل کا کہنا تھا، ’’ تقریباﹰ ہر مرتبہ ہی حملہ آوروں کا کوئی نہ کوئی تعلق مولن بَیک سے نکل آتا ہے۔‘‘ یاد رہے کہ بیلجیم کے تقریباﹰ ساڑھے تین سو شہری عراق اور شام میں داعش کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ حالیہ مہینوں میں کیے جانے والے ’حفاظتی اقدامات‘ ناکافی تھے اور اب ’بڑے کریک ڈاؤن‘ کی ضرورت ہے۔ اسی دوران بیلجیم کے وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ وہ ذاتی طور پر اس ڈسٹرکٹ کو انتہا پسندوں سے ’پاک‘ کریں گے۔

حکام کے مطابق اس علاقے میں پولیس کا کنٹرول اس وجہ سے بھی کم ہے کہ مقامی آبادی پولیس کے ساتھ بہت کم تعاون کرتی ہے۔ ایسا کم ہی ہوا ہے کہ کسی مشتبہ نقل و حرکت کی اطلاع خفیہ طور پر پولیس کو فراہم کی گئی ہو۔ نوّے ہزار کی آبادی والے مولن بیک کے کئی محلوں میں اسّی فیصد تک مسلمان رہتے ہیں۔ مولن بَیک کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح بھی پینتیس فیصد ہے، جو کہ برسلز کے دیگر علاقوں کی نسبت کئی گنا زیادہ ہے۔

بلال بنیاچ کا کہنا تھا کہ مولن بَیک ایک ایسی جگہ ہے، جہاں آپ آسانی سے پولیس کے ریڈار سے غائب ہو سکتے ہیں، ’’یہ علاقہ انتہاپسندوں اور جرائم پیشہ افراد کی ایئربیس بن چکا ہے۔‘‘ تفتیش کاروں کے مطابق یہ علاقہ اس وجہ سے بھی پرکشش ہے کہ وہاں سے ہتھیار خریدے جا سکتے ہیں۔

فلیمِش امن انسٹیٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے نیلز ڈی کوئٹ کہتے ہیں، ’’صحیح کنکشن کے ساتھ بیلجیم میں غیرقانونی ہتھیار حاصل کرنا بہت آسان ہے۔‘‘ سابق یوگوسلاویہ میں جنگ کے بعد سے استعمال شدہ کلاشنکوفیں وغیرہ یورپ اور بیلجیم میں اسمگل ہو رہی ہیں۔ یہ لوگ گاڑیوں پر مغربی یورپ سے چلتے ہیں اور ادھر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کے مطابق یورپ کی کھلی سرحدوں کی وجہ سے بھی اس کاروبار میں اضافہ ہوا ہے۔