بلوچستان کے لیے ’بے نظیر مصالحتی کمیٹی’کے تین نکات
26 اکتوبر 2008اکتوبر کی بائیس تاریخ کو پارلیمان کےبند کمرہ اجلاس کے اختتام پر جو متفقہ قرار داد منظور کی گئی تھی اس میں صوبہ بلوچستان میں ناراض سیاسی قوتوں کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کی منظوری بھی دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے مسائل کے حل اور وسائل کی دوبارہ تفویض کے عمل کو تیز کرنے کی بھی منظوری دی گئی تھی۔ غالباً اسی لیے اتوار کے روز بلوچستان کے لیے’ بے نظیو بھٹو مصالحتی کمیٹی ‘ کے سیکرٹری ڈاکٹر بابر اعوان نے اس ناراض صوبے کے لیے مفاہمت، تعمیر نو اور وسائل و اختیارات پر دوبارہ غور کرنے کے لیے تین نکاتی پالیسی کا اعلان کیا۔
اس تین نکاتی پالیسی پر عمل تین مرحلوں میں کیا جائے گا۔ بابر اعوان کے مطابق پہلے مرحلے میں تیس اکتوبر کو اسلام آباد میں بلوچ دانشوروں کے جرگے کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس جرگے کی سربراہی خود پاکستان کے صدر اور مذکورہ کمیٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری کریں گیں۔ دوسرے مرحلے میں بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوں کا ایک جرگہ منعقد کیا جائے گا۔ اس کے بعد صوبے اور پھر وفاق کی تمام سیاسی اور پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس بلوائے جائیں گے۔ ان اجلاس کا مقصد بلوچستان کے مسائل کا وفاقی سطح پر اجتماعی حل ڈھونڈنا ہے۔
بلوچستان کے لیے’ بے نظیو بھٹو مصالحتی کمیٹی ‘ کے سیکرٹری ڈاکٹر بابر اعوان کے مطابق آخری مرحلے میں وفاق اور صوبائی سطح پر دی جانے والی تجاویز کو بنیاد بنا کر اسے قانونی حیثیت دی جائے گی۔ جس کے لیے آئینی ترامیم کی ضرورت بھی پیش آئے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات مصالحتی کمیٹی کے چیئرمین ، پاکستانی صدر آصف علی زرداری کی ہدایات کی روشنی میں اٹھائے جا رہے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے اقدامات سے بلوچستان کے عوام کا احساس محرومی مکمل طور پر ختم کر دے گی۔ ’’ہم بلوچستان کے عوام کو امید نہیں بلکہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی وفاق کو بچانے کے لیے ، بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے اور ان کے جائز حقوق کے لیے بلوچستان کی عوام کے ساتھ ہیں۔ ‘‘
’ بے نظیو بھٹو مصالحتی کمیٹی ‘ کے اب تک کے کیے گئے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے بابر اعوان کا کہنا تھا کہ کمیٹی نے آٹھ سو تیس بلوچ سیاسی قیدیوں کی رہائی، ایک ہزار سے زائد سیاسی مقدمات کے خاتمے اور قانون نافذ کرنے والے سات ہزار اہلکاروں کی واپسی کو ممکن بنایا ہے۔ جبکہ بابر اعوان کے مطابق بگٹی، مینگل اور مری قبائل کے اثیر رہنماؤں کو قید سے نکالنے کا کریڈٹ بھی انہی کی حکومت کے سر جاتا ہے۔