1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچتسان کے زلزلہ زدگان کی امداد

تنویر شہزاد، لاہور1 نومبر 2008

اگرچہ ملک بھر میں بلوچستان کے زلزلہ زدگان کے لئے سرگرمیاں جاری ہیں تاہم ان سرگرمیوں کے باوجود بھی کہا جا رہا ہے کہ متاثرین تک امدادی سامان پہنچانے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/FlmM
زلزلہ زدگان امید کے منتظر ہیںتصویر: AP

بلوچستان کے ممتاز قوم پرست رہنما ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے کہا ہے کہ زلزلے کے متاثرہ آفت زدہ بلوچستان کی مصیبت کی گھڑیوں کو فوٹو شیشن کے لئے استعمال کرنے سے گریز کیا جائے۔

ریڈیو ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام کی طرف سے بلوچستان کے زلزلے کے متاثرین کی کھلے دل سے امداد بڑی خوش آئند ہے تا ہم ان کا کہنا تھا کہ کشمرمیں چند سال پہلے آنے والے زلزلے کے لئے دی جانے والی امدا دمیں جس طرح بد عنوانیوں کی شکایات سامنے آئی تھیں۔ ایسی شکایات کے اعادے سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ زلزلہ زدگان کی امداد کا شفاف طریقے سے استعمال یقینی بنایا جائے ۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ امدادی سامان کی تقسیم میں بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے مقامی کارکنوں کو بھی شریک کیا جائے۔

ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے پنجاب حکومت کی طرف سے متاثرین زلزلہ کے لئے 10 کروڑ روپے کی امداد کا خیر مقدم کیا ۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے متاثرہ اضلاع میں حالیہ زلزلے سے بڑی تباہی ہوئی ہے۔ اسکے مقابلے میں اب تک کی ملنے والی امدا دنا کافی ہے۔

ان کے مطابق دور دراز کے علاقوں میں اگر ادویات، خوراک اور شیلٹر کا سامان جلدی نہ پہنچا یا جا سکا تو یہ سانحہ ایک بڑے انسانی المیے کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے۔

Pakistan Erdbeben Hilfe von Hubschrauber
بلوچ رہنما ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے پنجاب حکومت کی طرف سے متاثرین زلزلہ کے لئے 10 کروڑ روپے کی امداد کا خیر مقدم کیاتصویر: AP

یاد رہے پاکستان بھر میں بلوچستان کے حالیہ زلزلے سے متاثرہ افراد کے لئے امدادی سر گرمیاں جاری ہیں۔ سیاسی ، سماجی مذہبی اور تجارتی تنظیموں کی طرف سے امدادی کیمپ لگائے گئے ہیں۔ امدادی سامان کی تیزی سے ترسیل کے لئے C-130 جہاز بھی استعمال کئے جا رہے ہیں۔ لیکن متاثرہ علاقوں سے موصولہ اطلاعات کے مطابق متاثرین زلزلہ کے لئے پہنچنے والی امداد کافی نہیں ہے۔ سردی کی شدت اور دشوار گزار راستے امدادی سر گرمیوں کی راہ میں رکاوٹ بنتے جا رہے ہیں۔ کئی علاقوں میں بیماریوں کے پھیلنے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ زیارت کے گردو نواح میں کم سے کم درجہ حرارت منفی 1 درجہ حرارت تک گر چکا ہے۔ اور امداد کے طور پر فراہم کئے جانے والے خیمے سردی کے اثرات کو روکنے میں ناکام ہوتے جا رہے ہیں۔

خدمت خلق فاﺅنڈیشن کے سربرارہ نعمت اﷲ خان نے ریڈیو ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ زلزلہ زدگان کو سخت آزمائش کا سامنا ہے انکے مکان، سامان اور شیلٹر سب کچھ تباہ ہو گیا ہے اور وہ کھلے آسمان کے نیچے سرد ہواﺅں کے تھپیڑوں میں علاج معالجے کی نا کافی سہولتوں کے ساتھ دن گزار رہے ہیں ۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ٹن پیک والی غذائی اشیاء، گرم کپڑے ، کمبل اور ادویات متاثرین کے لئے امدادی کیمپوں پر جمع کروائیں۔

ادھر جماعت الدعوہ نامی ایک مذہبی تنظیم نے زلزلہ زدہ علاقوں میں برف باری سے بچاﺅ کے لئے زلزلہ متاثرین کو جستی چادروں کے گھر بنا کر دینے کا اعلان کیا ہے۔ سعودی عرب سے بھی امدادی سامان کی پہلی کھیپ ہفتے کے روز کوئٹہ پہنچ گئی ہے۔ امریکہ ، چین، جرمنی اور اقوام متحدہ کی طرف سے بھی زلزلہ زدگان کی امداد کی جارہی ہے۔

کوئٹہ میں ایدھی فاﺅنڈیشن کے سینئر اہلکار محمد اسلام نے ریڈیو ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ متاثرین زلزلہ کی امداد کے لئے امدادی سامان بہت تیزی سے متاثرہ علاقوں میں پہنچایا جا رہا ہے۔ کئی جگہوں پر فری لنگر خانے قائم کئے گئے ہیں ۔ جہاں لوگوں کو کھانا پکا کر کھلایا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق ایدھی کی ایمبو لینسیں زخمیوں کو کوئٹہ کے ہسپتالوں میں لے کر جا رہی ہے اور علاج مکمل ہونے کے بعد متاثرین کو ان کے آبائی علاقوں میں واپس پہنچایا جا رہا ہے اور یہ سروس مفت فراہم کی جا رہی ہے۔