بغیر دستاویزات بھی مہاجرین کی ملک بدری ممکن: جرمن پولیس
22 جنوری 2017جرمن پولیس کے سربراہ ڈیٹر رومان نے جرمن نشریاتی ادارے ’ڈوئچ لانڈ فنک‘ کو رواں ہفتے دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت جلا وطنی کے عمل کا پاسپورٹ کی متبادل دستاویزات یا اپنے ملک سے جاری کی ہوئی دستاویزات کے دکھانے پر منحصر ہونا ضروری نہیں یعنی مہاجرین کی ملک بدری کے لیے اُن کی جانب سے سفری دستاویزات کا مہیا کیا جانا ضروری نہیں۔
رومان کا کہنا تھا، ’’ماضی میں ایسا صرف اسی صورت میں ممکن تھا، جب کسی کے پاس اپنے ملک کی یا پھر یورپی یونین میں سفر کرنے کے لیے جاری کردہ دستاویزات موجود ہوتی تھیں۔‘‘
درست شناختی دستاویزات کا نہ ہونا عموماﹰ ملک بدری میں ناکامی کی وجہ بنتا رہا ہے۔ جرمن پولیس کے سربراہ نے جبری واپسی کے حوالے سے ایک وفاقی ادارے کے قیام کی بھی درخواست کی۔ فی الوقت وفاقی جرمن ادارہ برائے مہاجرت اور ترکِ وطن اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ آیا کسی شخص کو پناہ کا حق ہونا چاہیے۔ بصورتِ دیگر یہ ذمہ داری فارن آفس کے مقامی حکام اور پولیس کو منتقل ہو جائے گی۔
مثال کے طور پر جرمنی کے شہر برلن کی ایک کرسمس مارکیٹ میں دہشت گردی کرنے والے تیونسی نژاد حملہ آور انیس عامری کے حوالے سے رومان کا موقف یہ تھا کہ اگر ضابطے کی کارروائیاں ضروری نہ رہی ہوتیں تو پناہ کی درخواست رد ہونے کے بعد انیس عامری کو جلد ملک بدر کر دیا جاتا۔
خیال رہے کہ پولیس اس سال جولائی میں انیس العامری کی سیاسی پناہ کی درخواست رَد ہو جانے کے بعد اُسے جبراً وطن واپس بھیجنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن ضروری شناختی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں کر پا رہی تھی اور ویسے بھی تیونس نے اُسے اپنا شہری تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔