بصرہ میں سلسلہ وار دھماکے، ایک درجن سے زائد ہلاک
8 اگست 2010الاشعر مارکیٹ مرکزی بصرہ میں واقع ہے اور شہریوں کی من پسند جگہ بھی ہے۔ ان دھماکوں کے حوالے سے متضاد خبریں موصول ہو رہی ہیں ۔ مقامی پولیس کے مطابق ہفتہ کی شام اس مارکیٹ میں پاور جنریٹر کے پھٹنے کے بعد کئی مقامات پر آگ بھی لگ گئی جس کو بعد میں آگ بجھانے والے عملے نے قابو میں کیا۔ ہلاک شدگان اور زخمیوں کو ہسپستالوں تک پہنچا دیا گیا ہے۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا ہے کہ کم از بیس افراد ہلاک ہوئے ہیں لیکن یہ بھی خدشہ ہے کہ یہ تعداد بڑھ سکتی ہے۔ طبی ذرائع نے کئی زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں خواتین اور بچوں کے ساتھ بے شمار ریڑھی بان بھی ہیں جو سودا سلف بیچ رہے تھے۔
بصرہ شہر کی سکیورٹی کمیٹی کے انچارج علی المالکی کا کہنا ہے کہ امدادی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ سکیورٹی حکام اور خفیہ ادارے اس دھماکے کی وجوہات جاننے کی کوشش میں بھی ہیں کہ کہیں یہ دہشت گردی کا واقعہ تو نہیں ہے۔ ایک رکن پارلیمنٹ حسین طالب نے روئٹرز ٹیلی وژن کو بتایا کہ شہر میں کم از کم تین دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔
اس دھماکے کی ذمہ داری بھی عوام اراکین پارلیمنٹ پر ڈال رہے ہیں جو سات مارچ کے انتخابات کے بعد ابھی تک حکومت سازی میں ناکام ہیں۔ عام لوگ بھی کہنے لگے ہیں کہ تمام سیاسی راہنما صرف اقتدار کی کشمکش میں ہیں۔ نوری المالکی اور ایاد علاوی کے درمیان حکومت سازی کی مفاہمت نہیں ہو پا رہی اور کہا جا رہا ہے کہ اصل وجہ وزارت عظمیٰ کا منصب ہے جو نور المالکی چھوڑنا نہیں چاہتے اور ایاد علاوی اس کے حصول کی ہر کوشش کر رہے ہیں۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ نئی حکومت کی عدم موجودگی کی وجہ سے جو انتظامی خلا پیدا ہو چکا ہے اس کا القاعدہ اور اس کے حلیف فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ گزشتہ دو ماہ یعنی جون اور جولائی کے دوران مضبوط حکومت نہ ہونے کی وجہ سے ملک بھر میں امن و امان کی مجموعی صورت حال خراب سے خراب تر ہو رہی ہے اور اب تک سینکڑوں افراد دہشت گردانہ کارروائیوں میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔
بصرہ کا شہر عراقی دارالحکومت بغداد سے ساڑھے پانچ سو کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ یہ عراق کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہ شط العرب میں واقع ہے اور خلیج فارس کی نزدیک ہے۔ اس شہر کے اطراف میں زیر زمین تیل حاصل کرنے والی ملکی اور بین الاقوامی کمپنیوں کی تنصیبات دور سے دکھائی دیتی ہے۔ بصرہ کی کھجوریں پاک و ہند میں مشہور ہیں اور عربی ادب میں یہاں کی خواتین کو حوروں سے تشبیہ دی جاتی ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: عاطف بلوچ