بزنس مين کا اغواء، ويت نام اور جرمنی کے مابين سفارتی تنازعہ
4 اگست 2017ويت نام کی حُکومت نے اپنے ايک تازہ بيان ميں جرمن وزارت خارجہ کے اس بيان پر افسوس ظاہر کيا ہے، جس ميں برلن حکومت نے الزام عائد کيا ہے کہ دھاندلی کے جرم ميں ملوث ہونے کے شبے میں مطلوب ايک سابقہ کاروباری شخص کے اغوا ميں ويت نامی انٹيليجنس ايجنسياں ملوث ہيں۔ جرمن حکام کا ماننا ہے کہ سابقہ طور پر تيل کی تجارت کرنے والے اور ويت نام ميں مطلوب ٹرن يوآن نا کو برلن سے اغواء کيا گيا۔ برلن حکام نے احتجاجاً ويت نامی سفارتی عملے کے انٹيليجنس اٹيچی کو بدھ کے روز اڑتاليس گھنٹوں ميں ملک جھوڑنے کا حکم ديا تھا۔
متعلقہ ويت نامی بزنس مين کو اپنے ملک ميں دھاندلی کے الزامات کا سامنا ہے۔ جرم ثابت ہونے پر انہيں سزائے موت سنائی جا سکتی ہے۔ انہوں نے جرمنی سياسی پناہ کی درخواست دے رکھی ہے، جس پر تاحال کارروائی نہيں ہو سکی ہے۔ ہنوئی حکومت نے ان کی حوالگی کا مطالبہ کر رکھا ہے۔
ويت نام کی وزارت خارجہ کی ترجمان کے بقول اس سلسلے ميں سامنے آنے والا جرمن حکومت کا بيان ’قابل افسوس‘ ہے۔ ويت نامی حکام کے مطابق Trinh Xuan Thanh نے اکتيس جولائی کے دن خود کو ويت نام ميں پوليس کے حوالے کر ديا تھا۔ ترجمان نے کہا، ’’ويت نام جرمنی کے ساتھ باہمی تعلقات کو ہميشہ اہميت ديتا ہے اور خواہش رکھتا ہے کہ يہ تعلقات فروغ پائيں۔‘‘
اکاون سالہ Trinh Xuan Thanh گزشتہ سال جولائی ميں لاپتہ ہو گئے تھے۔ اس گمشدگی سے قبل ان پر يہ الزام لگايا گيا تھا کہ ’پيٹرو ويت نام‘ نامی کمپنی ميں انتظامی غلطيوں کا سبب بنے، جس کی وجہ سے ڈيڑھ ملين ڈالر کا مالی نقصان ہوا۔ ويت نام کی پوليس نے ستمبر ميں ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کيے تھے جبکہ اس سال مارچ ميں ان کے خلاف الزامات کی باقاعدہ تحقيقات شروع ہوئيں۔ وہ سن 2013 ميں ’پيٹرو ويت نام‘ کے چيئرمين تھے۔
جرمن وزارت خارجہ کے حکام نے اسی ہفتے منگل کو ويت نامی سفير کو طلب کر ليا تھا۔ ان سے يہ مطالبہ کيا گيا کہTrinh Xuan Thanh کو واپس کيا جائے تاکہ ان کی سياسی پناہ کی درخواست يا پھر ان کی ہنوئی حکومت کو حوالگی کی قانونی کارروائی آگے بڑھائی جائے۔