بریگزٹ صرف پارلیمان کی رضامندی سے ہو سکتا ہے، سپریم کورٹ
24 جنوری 2017منگل کے روز سنائے جانے والے اس عدالتی فیصلے کے مطابق وزیراعظم ٹریزا مے لزبن ٹریٹی کی شق نمبر پچاس کے تحت یورپی یونین سے علیحدگی کا عمل تنہا شروع نہیں کر سکتیں بلکہ انہیں اس عمل سے قبل اس کی پارلیمان سے منظوری لینا ہوگی۔ تاہم سکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ کی اسمبلیوں سے پوچھنا لازمی نہیں ہوگا۔
اس کیس کی سماعت کرنے والے گیارہ ججوں میں سے آٹھ نے پارلیمان سے منظوری کے حق میں ووٹ دیا جبکہ تین ججوں نے اس کی مخالفت کی۔ تاہم سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے جون میں ہونے والے ریفرنڈم کی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، جس میں باون فیصد شرکاء نے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
دریں اثناء برطانوی وزیراعظم کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ اس عدالتی فیصلے کے باوجود مارچ کے اختتام پر بریگزٹ کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔ عدالت نے حکومت کی اس دلیل کو مسترد کر دیا ہے کہ اس حوالے سے برطانوی وزیر اعظم اپنے انتظامی اختیارات کا استعمال کر سکتی ہیں، جنہیں "رائل استحقاق" کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس طرح وہ لزبن ٹریٹی کے آرٹیکل نمبر پچاس کو متحرک کر سکتی ہیں۔ برطانوی حکومت آئندہ دو برس کے اندر اندر یورپی یونین سے اخراج کا عمل مکمل کرنا چاہتی ہے۔
یورپی رہنما برطانوی عوام کو سزا دینے کی کوشش نہ کریں، مے
برطانوی وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے، ’’برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ کیا اور حکومت مارچ کے اختتام تک علیحدگی کے اس عمل کو شروع کرنا چاہتی ہے۔ آج کے عدالتی فیصلے سے کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔‘‘
اب برطانوی وزیراعظم کو آئندہ نو ہفتوں کے اندر اندر اس کی پارلیمان سے منظوری لینا ہو گی۔ حکومتی بیان کے مطابق ان کے پلان میں کسی قسم کا رد و بدل نہیں کیا جائے گا اور تمام چیزیں ویسے ہی ہوں گی، جیسے پہلے شیڈیول کی گئی ہیں۔ تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق اس فیصلے سے یہ ضرور ہوا ہے کہ ٹریزا مے اور ان کے مشیر پارلیمان پر توجہ مرکوز کریں گے۔
دوسری جانب برطانوی حکومت اس حوالے سے عدالت کو قائل کرنے میں کامیاب رہی ہے کہ اس عمل کے آغاز کی اجازت ویلز اور شمالی آئرلینڈ کی اسمبلیوں سے نہ لی جائے۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ عمل تاخیر کا شکار ہو سکتا تھا۔