بریوک کو غیرانسانی سلوک کا سامنا، عدالتی کارروائی شروع
12 جنوری 2017آندرس بیہرنگ بریوک کے اس الزام کے بعد عدالتی کارروائی کا آغاز ہو گیا ہے۔ کارروائی کے پہلے دن غیرانسانی سلوک کے حوالے سے اُس کے دعوے کی صداقت اور مستند ہونے پر بحث کی جائے گی۔ اُس نے اپنی شکایت میں الزام عائد کیا ہے کہ اُسے غیر ضروری پابندیوں کا سامنا ہے اور اُسے دوسرے قیدیوں سے میل ملاپ کی اجازت بھی نہیں حاصل ہے۔ وہ اِس وقت ناروے کی ہائی سکیورٹی جیل اسکین میں قید ہے۔
بریوک کے وکیل اوسٹین اسٹوروک نے اپنے موکل کی جانب سے جو درخواست دائر کی ہے، اس میں بتایا گیا کہ بریوک کو جیل میں ورزش کی سہولت ضرور حاصل ہے۔ اُس نے عدالت میں دائر اپیل میں یہ بھی بیان کیا کہ اُسے قیدِ تنہائی کا سامنا کرنے کے علاوہ سینسر شدہ خطوط دیے جاتے ہیں۔
ان نکات پر عدالتی کارروائی میں ریاست کو جواب دینے ہوں گے کہ آیا بریوک کے ساتھ غیرانسانی سلوک دانستہ طور پر روا رکھا گیا ہے۔ ریاستی وکیل اور بریوک کے وکیل نے عدالتی سماعت شروع ہونے کی تصدیق کی ہے۔ سکیورٹی کے تناظر میں ناروے کی اپیل کورٹ کے لیے اسکین جیل کے اسپورٹس ہال کو عارضی طور پر عدالتی احاطے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
عدالت نے بریک کے مقدمے کی کارروائی نشر یا شائع کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ناروے کے سماجی و صحافی حلقوں نے اس عدالتی پابندی کو غیر معمولی قرار دیتے ہوسے حیرانی کا اظہار کیا ہے۔گزشتہ برس ایک عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا تھا کہ اسکین جیل میں بریوک کو جن حالات کا سامنا ہے، ان میں چند واقعتاً غیرانسانی اور کم درجے کے ہیں۔ اسی عدالت نے بریوک کی ڈاک کو سینسر کرنے کے دعوے کو مسترد کر دیا تھا۔
بریوک کو اگست سن 2012 میں 77 انسانوں کو ہلاک کرنے کے جرم میں 21 برس کی قید سزا سنائی جا چکی ہے۔ بائیس جولائی 2011ء میں رونما ہونے والا یہ واقعہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ناروے میں دہشت گردی کا بدترین واقعہ تھا۔