برلن میں G20 کانفرنس
23 فروری 2009سياسی رہنما اب بحران پيدا ہوجانے کے بعد جو سرگرمی دکھا رہے ہيں اس سے يہ معلوم ہوتاہے کہ يا تو وہ اس بارے ميں قطعی لاعلمی کا شکار تھے اوريا پھريہ کہ پورے کے پورے ملک بينکوں اوراقتصادی منافع خوروں کی گرفت ميں تھے اور يہ گرفت اب اس لئے ڈھيلی پڑ رہی ہے کيونکہ وہ بے انتہا لالچ کی وجہ سے مشکل ميں پھنسے ہوئے ہيں اورسياستدانوں سے مدد کی اميد رکھتے ہيں۔
ہوسکتا ہے کہ اس کے لئے اب خاصی دير ہوچکی ہو۔ برلن ميں يورپ کے 20 ممتازصنعتی ملکوں کی سربراہ کانفرنس ميں بہت کھلے الفاظ استعمال کئے گئے۔ جرمن چانسلرميرکل نے نومبرميں واشنگٹن کی سربراہ کانفرنس ميں، مالياتی منڈيوں کی تشکيل نو کے لئے منظور کئے جانے والے 47 نکاتی منصوبے کی واضح حمايت کی۔ انہوں نے کل کانفرنس کے ختم ہونے کے بعد کہا ’’ہم اس کی حمايت کرتے ہيں کہ تمام مالياتی منڈياں اورمصنوعات اورمالياتی سرگرميوں میں حصہ لينے والوں کی نگرانی اور ان کے لئے ضوابط ہونا چاہئیں۔ اس کے لئے ضروری تفصيلات کو تيار کيا جائے گا اور يہ ايکشن پلان کا حصہ ہوں گی۔‘‘
اس ايکشن پلان پر نومبر ميں واشنگٹن ميں ہونے والی G20 کی سربراہ کانفرنس ميں اتفاق رائے ہوچکا ہے۔ جرمن چانسلراقوام متحدہ کی ايک اقتصادی کونسل کا قيام چاہتی ہيں۔ عالمی مالياتی فنڈ کو بھی زيادہ سرمايہ مہيا کرنے کی تجويز ہے تا کہ وہ ضرورت پڑنے پر ملکوں کی مدد کرسکے۔ فرانس کے صدرسارکوزی نے کہا کہ’’ ہم سب کواحساس ہے کہ يہ آخری موقعہ ہے يورپ پورے مالياتی نظام کی نئے سرے سے بنياد رکھنے پر متفق ہے۔‘‘
برطانيہ کے وزيراعظم گورڈن براؤن نے عالمی اقتصادی نظام ميں ايک نئے سمجھوتے کی بات کی اور کہا ’’ ہم نے اپنے بینکاری نظام ميں ممکنہ حد تک زيادہ سے زيادہ سرمايہ جھونک ديا ہے تاکہ وہ صنعتکاروں اورنجی افراد کوقرضے دے سکے۔ ہميں جامع اتفاق رائے کی ضرورت ہے تاکہ عالمی اقتصاديت بہتر ہوسکے اورآئندہ کے لئے بہترين اور معقول ترين بنياد رکھی جاسکے۔‘‘
دواپريل کولندن ميں يورپ کے 20 ممتاز صنعتی ملکوں کی دوسری سربراہ کانفرنس ہوگی۔