برلن حملے کا مشتبہ ملزم کہاں چھُپا ہے؟ تلاش یورپ بھر میں
22 دسمبر 2016پیر کے روز ایک ٹرک کے ذریعے برلن کی ایک کرسمس مارکیٹ کو روند ڈالا گیا تھا اور اِس واقعے میں ایک اسرائیلی خاتون سمیت بارہ افراد ہلاک اور پچاس زخمی ہو گئے تھے۔ اس ٹرک کے اندر سے تیونس سے تعلق رکھنے والے انیس العامری کی شناختی دستاویزات ملی تھیں، جو ایک ہی سال پہلے جرمنی پہنچا تھا۔ پولیس نے جائے وقوعہ سے ایک پاکستانی شہری نوید بلوچ کو گرفتار کر لیا تھا تاہم تحقیقات کے بعد اُسے یہ کہہ کر رہا کر دیا تھا کہ اُس کا اِس واقعے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
اب پولیس کا خیال ہے کہ اس واردات کے پیچھے چوبیس سالہ انیس العامری کا ہاتھ ہو سکتا ہے، جو پولیس کی معلومات کے مطابق اب تک چھ مختلف نام استعمال کر چکا ہے اور اپنا تعلق چھ مختلف ممالک سے ظاہر کر چکا ہے۔
بظاہر یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ اگر انیس العامری ہی حملہ آور ہے تو وہ غلطی سے اپنی شناختی دشتاویزات ٹرک کے اندر بھول گیا ہو۔ ایسے میں پولیس اس رُخ پر بھی تحقیقات کر رہی ہے کہ ممکن ہے کہ حملہ آور اِن شناختی دستاویزات کی مدد سے جان بوجھ کر پولیس کی تحقیقات کو غلط رُخ پر لے جانا چاہتا ہو۔
پولیس کی تحقیقات میں پیشرفت کا انحصار انیس العامری کی گرفتاری پر ہے، جس کے بارے میں کوئی بھی ٹھوس اطلاع فراہم کرنے والے کے لیے ایک لاکھ یورو کے انعام کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی پولیس نے عوام کو خبردار بھی کیا ہے کہ چوبیس سالہ العامری مسلح ہو سکتا ہے اور خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
اسی دوران انیس العامری کے ایک بھائی نے اُسے خود کو پولیس کے حوالے کر دینے کے لیے کہا ہے۔ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس سے باتیں کرتے ہوئےعبدالقادر العامری نے کہا:’’اُس کے لیے میرا پیغام یہ ہے کہ وہ خود کو حکام کے حوالے کر دے۔ اگر ثابت ہو گیا کہ وہ اِس میں ملوث ہے تو ہم اُس سے قطع تعلق کر لیں گے۔‘‘
عبدالقادر العامری کے مطابق اُس کا بھائی تیونس میں چند سال پہلے کی ’عرب اسپرنگ‘ نامی انقلابی تحریک کے دوران اٹلی چلا گیا تھا، جہاں اُسے جیل جانا پڑا تھا اور ممکن ہے کہ وہیں اُس کا انتہا پسندوں سے رابطہ ہوا ہو۔
جرمنی بھر میں کئی مقامات پر انیس العامری کی تلاش میں چھاپے مارے جا چکے ہیں۔ ڈنمارک کی پولیس کو پتہ چلا کہ سویڈن کو جانے والے ایک بحری جہاز پر ایسا شخص موجود ہے، جس کی شکل انیس العامری سے ملتی جلتی ہے تاہم پولیس کو جہاز کی تلاش کے دوران ایسا کچھ نہ مل سکا، جس سے وہاں اس مشتبہ ملزم کی موجودگی ثابت ہوتی۔
پولیس اس سال جولائی میں انیس العامری کی سیاسی پناہ کی درخواست رَد ہو جانے کے بعد اُسے جبراً وطن واپس بھیجنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن ضروری شناختی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں کر پا رہی تھی اور ویسے بھی تیونس نے اُسے اپنا شہری تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق انیس العامری تیونس اور اٹلی میں جیل میں رہ چکا ہے اور امریکی جریدے ’نیویارک ٹائمز‘ کے مطابق اُس نے انٹرنیٹ پر بم بنانے سے متعلق معلومات حاصل کی تھیں۔ انیس العامری اس سال فروری سے برلن میں مقیم تھا اور حکام کو ایسی معلومات ملی تھیں کہ وہ کہیں چوری کرنے کا پروگرام بنا رہا ہے تاکہ اُس پیسے سے خود کار ہتھیار خرید سکے اور پھر کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر کوئی کارروائی کر سکے۔ اس سال مارچ سے لے کر ستمبر تک پولیس اُس کی خفیہ نگرانی بھی کرتی رہی لیکن پھر کوئی ٹھوس شواہد نہ ملنے پر یہ نگرانی ختم کر دی گئی۔