برطانیہ: پاکستانی نژاد مبلغ انجم چوہدری کو قید کی سزا
6 ستمبر 2016انچاس سالہ انجم چوہدری اور ان کے قریبی شریک کار تینتیس سالہ محمد میزان الرحمان پر الزام تھا کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر سلسلہ وار ایسی تقاریر پوسٹ کی تھیں، جن میں مسلمانوں کو شدت پسند ملیشیا ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی حمایت کی دعوت دی گئی تھی۔ ان دونوں افراد پر جیوری کی طرف سے فرد جرم جولائی میں عائد کی گئی تھی۔ میزان الرحمان کو بھی ساڑھے پانچ برس ہی کی سزائے قید سنائی گئی ہے۔
لندن کی میٹروپولیٹن پولیس میں انسداد دہشت گردی کے سربراہ ڈین ہیڈن کے مطابق، ’’اگرچہ یہ افراد کئی برسوں تک قانون کے دائرے کے اندر ہی سرگرم رہے لیکن ان کی طرف سے پھیلائی گئی نفرت قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں اور عوام دونوں ہی کے لیے پریشانی کا باعث بنتی رہی۔‘‘
برطانوی پریس کی طرف سے نفرت پھیلانے والے مبلغ قرار دیے جانے والے انجم چوہدری برطانیہ سے باہر بھی جانے جاتے تھے اور وہ شدت پسندوں کی طرف سے حملوں کے تناظر میں ٹیلی وژن پر باقاعدگی سے آ کر مسلمانوں کو نشانہ بنانے والی مغربی ممالک کی خارجہ پالیسیوں کو اس طرح کے حملوں کا ذمہ قرار دیتے تھے۔
انجم چوہدری برطانیہ میں اسلام فور یوکے یا ’المہاجرون ‘ کے نام سے ایک تنظیم کے سربراہ بھی رہے، جس پر بعد میں برطانوی حکومت نے پابندی عائد کر دی تھی۔ اس تنظیم کے بانی عمر بکری محمد نے برطانیہ میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کیا تھا۔ برطانوی پولیس کے مطابق ’ المہاجرون ‘ سے منسلک افراد لندن میں جولائی سن 2005 میں ہونے والے ان دھماکوں میں ملوث تھے، جن میں باون افراد ہلاک ہوئے تھے۔ انجم چوہدری سن 2011 میں اس وقت اخباروں کی شہ سرخیوں کا موضوع بنے، جب انہوں نے لندن میں اسامہ بن لادن کی حمایت میں ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا۔
شدت پسندوں کی حمایت پر اکسانے والے تبصروں اور مسلم شدت پسندوں کے حملوں کی مذمت نہ کرنے کے باوجود انجم چوہدری کسی قسم کی عسکریت پسندی سے لا تعلقی کا اعلان کرتے آئے ہیں۔ اس سے قبل ان پر دہشت گردی کے بھی کوئی الزامات عائد نہیں کیے گئے۔