برطانیہ میں اعلیٰ دفتری عہدوں پر خواتین کی نمائندگی میں اضافہ
11 اکتوبر 2011اس ضمن میں ایک نیا ضابطہ متعارف کروایا گیا ہے۔ کئی یورپی ممالک جیسے فرانس، ناروے اور اسپین میں تو خواتین کے لیے باقاعدہ طور پر کوٹہ مختص ہے مگر برطانیہ میں فی الحال خواتین کے لیے اعلیٰ دفتری عہدوں کا کوٹہ مختص نہیں کیا گیا۔ نئے ضابطے کے تحت برطانوی کمپنیوں کو اگلے سال سے خواتین کی نمائندگی کو یقینی بنانے کے لیے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
برطانیہ میں کارپوریٹ سیکٹر میں بہتر انتظام کو یقینی بنانے کے لیے سرگرم خودمختار ادارے فنانشنل رپورٹنگ کونسل ایف آر سی کے مطابق نئے ضابطے کے تحت اب کمپنیوں کو اپنا لائحہ عمل نئے سرے سے تشکیل دینا ہوگا۔ ایف آر سی کے تحت کمپنیوں کو سالانہ بنیادوں پر خواتین کی نمائندگی سے متعلق اعداد و شمار پیش کرنا ہوں گے۔ ایف آر سی کے چئیرمین بیرونس ہوگ کا کہنا ہے کہ ضابطے میں یہ تبدیلی اگلے سال سے نافذ العمل تصور ہوگی مگر کمپنیوں کی طرف سے رضا کارانہ طور پر جلد ہی اس پر عملدرآمد کرنے کی امید ہے۔
برطانیہ کے ایک حکومتی کمیشن نے اس سے قبل اپنی ایک رپورٹ میں تجویز دی تھی کہ بڑی کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں خواتین کو کم از کم پچیس فیصد نمائندگی ملنی چاہیے۔
یورپ میں پیشہ ور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم دی یورپین پروفیشنل وومنیز نیٹ ورک کے مطابق گزشتہ چھ سالوں میں اعلیٰ دفتری عہدوں پر خواتین کی نمائندگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس تنظیم کے مطابق 2004ء میں اعلیٰ عہدوں پر 8 فیصد نمائندگی خواتین کو حاصل تھی جبکہ 2010ء میں یہ نمائندگی 12 فیصد ہوچکی ہے۔
برطانیہ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ یہاں اوسط بنیادوں پر اعلیٰ دفتری عہدوں پر خواتین کی نمائندگی 11 اعشاریہ 7 فیصد کے برابر ہے جو ناروے، سویڈن اور ہالینڈ سے قدرے بہتر ہے۔ خواتین کے اعلیٰ عہدوں کے حوالے سے امریکی کمپنی پراکٹر اینڈ گیمبل کا دعویٰ ہے کہ ان کے یہاں 11 رکنی بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ریکارڈ پانچ ارکان خواتین ہیں۔ اسی طرح اس کمپنی میں 42 فیصد مینیجرز اور چھ ایگزیکیٹیوز بھی خواتین ہیں۔
پی اینڈ جی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر بوب مکڈونلڈ کے بقول اسی کے سبب ان کی کمپنی کو کامیابیاں مل رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ کمپنی زیادہ تر ایسی اشیاء تیار کرتی ہے جسے خریدنے کا فیصلہ اکثر خواتین ہی کرتی ہیں جیسا کہ کپڑے دھونے کا پاؤڈر، بچوں کے ڈائپرز، صابن، شیمپو اور جلد کی کریمیں وغیرہ۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عاطف بلوچ