برطانیہ میں اسلامی انتہا پسند قیدیوں کو الگ رکھا جائے گا
22 اگست 2016برطانوی وزیر انصاف لز ٹرس نے آج برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی ریڈیو کو دیے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ ایسا اس لیے کر رہی ہیں تاکہ جیلوں میں اسلامی انتہا پسند نظریے کی ترویج کی روک تھام کی جا سکے۔ ٹرس کے مطابق جیل اہلکاروں کو متعلقہ تربیت بھی فراہم کی جائے گی۔ ٹرس نے انٹرویو میں مزید کہا،’’ تاہم ایسے تخریب کار افراد بہت ہی کم تعداد میں ہیں جنہیں علیحدہ سیل میں رکھنا ہوگا۔ ایسے افراد کے لیے ہم جیلوں میں مخصوص یونٹ تعمیر کر رہے ہیں۔‘‘ مذہبی انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والے قیدیوں سے متعلق یہ نئی پالیسی دراصل جیل کے سابق گورنر ائین ایچیسن کےجیلوں میں انتہا پسندی سے متعلق جائزے پر مبنی ہے۔ یہ جائزہ رپورٹ سوموار کے روز شائع کی جائے گی۔ ایچیسن کے مطابق جیلوں میں انتہا پسندانہ رحجانات سے نمٹنے میں اس لیے زیادہ کامیابی نہیں ہو سکی کیونکہ جیل کا عملہ خود پر نسل پرستی کی چھاپ لگنے سے خائف تھا۔
برطانوی وزیر انصاف کے مطابق جیل حکام اور گورنرز کو انتہا پسندی کی بیخ کنی کا اختیار دیا جائے گا۔ برطانیہ کی جانب سے یہ اقدام ایسے وقت میں اٹھایا جا رہا ہے جب ملک کے متنازعہ اسلام پسند مبلغ انجم چوہدری کو مسلمان برطانوی جوانوں کو اسلامک اسٹیٹ کی حمایت پر آمادہ کرنے کے جرم میں آئندہ ماہ سزا سنائی جانے والی ہے۔ دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ مخصوص یونٹ بجائے خود اسلامی انتہا پسندی کا مرکز بن سکتے ہیں جہاں خطرناک درجے کے انتہا پسند خیالات کا تبادلہ کرسکتے ہیں اور ایک مربوط نیٹ ورک تشکیل دے سکتے ہیں۔ ان تنقید نگاروں نے اسی کی دہائی میں شمالی آئر لینڈ میں کی جانے والی کچھ غلطیوں کی مثال بھی دی ہے جہاں دونوں اطراف سے نیم فوجی قیدیوں نے جیل میں رہتے ہوئے خود کو منظم کر لیا تھا۔