برطانوی وزیرِ خارجہ کا غیر متوقع دورہ افغانستان
25 نومبر 2008نو منتخب امریکی صدر باراک اوباما دہشت گردی کے خلاف جنگ کا محور افغانستان کو سمجھتے ہیں اور بیس جنوری دو ہزار نو کو حلف اٹھانے کے بعد وہ اس جانب توجّہ مرکوز کریں گے۔ وہ افغانستان میں مزید افواج روانہ کرنے کی بات بارہا کرچکے ہیں اور امکاناً اقتدار سنبھالنے کے بعد افغانستان میں مزید بیس ہزار امریکی افواج روانہ کی جاسکتی ہیں۔ دوسری جانب عراق سے امریکی افواج کے مرحلہ وار انخلاء کا فیصلہ تقریباً ہو چکا ہے مگر اس میں مزید ڈیڑھ یا دو برس لگ سکتے ہیں۔
افغانستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کا محور بننے جا رہا ہے اور غالباً اسی واسطے افغان صدر حامد کرزئی نے منگل کے روز بین الاقوامی برادری کو ایک مرتبہ پر دھمکی دی ہے کہ وہ افغانستان میں جنگ ختم کرنے سے متعلق ایک وقت طے کرلیں ورنہ ان کی حکومت طالبان سے سیاسی زریعے سے نمٹنے کی کوشش کرے گی۔ اس سے قبل وہ طالبان رہنما ملا عمر کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کی بات کرچکے ہیں جس کو طالبان نے یہ کہہ کر رد کردیا تھا کہ کرزئی اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ کوئی فیصلہ کرسکیں۔
اسی دوران برطانیہ کے وزیرِ خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ افغانستان کے ایک غیر اعلانیہ دورے پر پہنچ گئے ہیں جہاں وہ افغان صدر سے ملاقات کر رہے ہیں۔اس کے بعد وہ مستقبل میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ایک اور محور پاکستان بھی جائیں گے۔ ابھی پیر کے روز ہی ایک برطانوی فوجی جنوبی افغانستان کے صوبے ہلمند میں بم دھماکے کے نتیجے میں ہلاک ہوگیا تھا۔ دوسری جانب نیٹو افواج میں شامل جرمن سپاہی بھی حالیہ عرصے میں متعدد بار بم دھماکوں کی زد میں آچکے ہیں اور ان میں اکثر شدید زخمی بھی ہوئے ہیں۔
تو کیا مزید مغربی افواج کی افغانستان میں تعیناتی سے وہاں جاری عسکریت پسندی کا خاتمہ ہوسکے گا؟ پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ اور سولین حکومت اکثر یہ کہتی دکھائی دیتی ہے کہ فوجی طاقت کے زریعے طالبان کو کنٹرول کرنا منفی ثابت ہوگا اور اس سے دہشت گردی میں صرف اضافہ ہوگا۔ بعض مبصرین کے مطابق اس سے مراد پاکستانی سولین اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی یہ ہوتی ہے کہ پاکستان کے زریعے طالبان سے بات چیت کی جائے کیوں کہ پاکستان ہی طالبان کو قابو میں رکھ سکتا ہے۔ اسی واسطے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ امریکی جاسوس طیّاروں کی پاکستان سرحد کے اندر عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر مبینہ بمباری کے خلاف ہے۔
مگر جہاں باراک اوباما کی انتظامیہ افواج میں اضافے کا ارادہ کر رہی ہے وہاں غالباً پاکستان کو نظر انداز کرکے سعودی عرب کے زریعے طالبان سے مذاکرات کا آغاز ہو بھی چکا ہے۔ بعض مبصرین کے مطابق یہ بات پاکستان کے لیے تکلیف کا باعث ہے۔