1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’برائے فر وخت‘ بچی باپ کی تحویل میں مت دی جائے، عدالت

عابد حسین
27 اکتوبر 2016

ایک جرمن عدالت نے ایک چالیس روزہ بچی کو اُس کے مہاجر باپ کی تحویل میں دینے کی اجازت نہیں دی۔ مہاجر شخص نے اپنی بچی کی فروخت کا اشتہار انٹرنیٹ پر عام کیا تھا۔

https://p.dw.com/p/2RnXb
Baby im Internet zum Verkauf angeboten
ای بے پر بچی کی فروخت کے اشتہار پر صارفین نے گہرے تحفظات کا اظہنار کیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa/ebay Kleinanzeigen

جرمنی کی ایک عدالت نے ابتدائی سماعت کے بعد مقامی انتظامی حکام کو پابند کیا کہ وہ حکومتی تحویل میں لی گئی اُس بچی کو واپس اُس کے باپ کے حوالے مت کرے، جس کی فروخت کا اشتہار دیا گیا تھا۔ عدالت نے اس کی ضرور اجازت دی کہ بچی سے اُس کے باپ کی ملاقات سرکاری نگرانی میں کرائی جا سکتی ہے۔ دوسری جانب پولیس اِس ضمن میں تفتیش جاری رکھے ہوئے ہے کہ آیا یہ انسانی اسمگلنگ کا واقعہ ہے۔

بچی کی پرورش اور نگہداشت اب لے پالک والدین کی نگرانی میں کی جا رہی ہے۔ عدالت نے آج جمعرات کو اپنے فیصلے میں حکم دیا کہ اگلے دنوں میں بچی کو اُس کی ماں کی تحویل میں دے دیا جائے اور اُس کی والدہ ایک ایسی رہائشی عمارت میں منتقل کیا جائے جہاں خاص طور پر شوہروں کے بغیر رہنے والی عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ رہائش پذیرہوں۔

چالیس روزہ بچی کی فروخت کا اشتہار اُس کے باپ نے انٹرنیٹ پر سامان فروخت کرنے والے مشہور ادارے ای بے پر جاری کیا تھا۔ اشتہار ای بے کی ویب سائٹ کے اُس حصے پر جاری کیا گیا جہاں گھریلو سامان کے علاوہ چھوٹے سامان یا اشیاء کو فروخت کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ مہاجر شخص نے بچی کی قیمت پانچ ہزار یورو لگائی تھی۔

DW Shift Geschichte von Ebay EINSCHRÄNKUNG
ای بے سیکنڈ ہینڈ اشیا کے ساتھ ساتھ نیا سامان بھی فروخت کرتا ہےتصویر: DW

اِس اشتہار کو کچھ دیر بعد ای بے کی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا تھا۔ ای بے کے صارفین نے اِس اشتہار پر شدید تشویش اور تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہی تشویش فوری طور پر اشتہار ہٹانے کی وجہ بنی تھی لیکن اشتہار ہٹانے سے معاملہ دبا نہیں اور مقامی انتظامیہ متحرک ہو گئی۔

 پولیس نے اس کی تصدیق کی ہے کہ چالیس ایام کی عمر والی بچی ایک مہاجر خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ اس مہاجر خاندان کی تفصیل پولیس نے جاری نہیں کی۔ اشتہار کے بعد اِس بابت پولیس کو بھی مطلع کر دیا گیا۔ پولیس نے حفاظتی تدابیر اختیار کرتے ہوئے فوری طور پر بچی کو اپنی تحویل میں لے لیا کہ کہیں اِس کے باپ کو کوئی گاہک میسر ہی نہ آ جائے یا انٹرنیٹ پر اشتہار دیکھ کر کسی نے رابطہ ہی نہ کیا ہو۔

پولیس کی تفتیش کے دوران بچی کے باپ نے ابتدا میں اس کو ماننے سے انکار کر دیا کہ اُس نے کوئی اشتہار بچی کی فروخت کا ای بے پر دیا تھا۔ بعد میں اُس نے اعتراف کیا کہ وہ ایسا کرنے کا مرتکب ضرور ہوا ہے لیکن یہ ایک مذاق تھا۔ اِس معاملے کی تفتیش ابھی تک جاری ہے۔