بدعنوانی سے پاک عدلیہ، پالیسی کا اعلان
4 مئی 2009پیر کے روز ایک پریس کانفرنس میں نئی عدالتی پالیسی کے خدوخال بتاتے ہوئے سپریم کورٹ کے رجسٹرار ڈاکٹر فقیر حسین نے کہا کہ عدالتوں میں کام کی رفتار تیز کرنے کے لئے دیگر سرکاری محکموں میں فرائض انجام دینے والے تمام ججوں کو واپس بلایا جا رہا ہے۔
سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے مطابق اس وقت ملک بھر میں 17 لاکھ مقدمات زیر التواء ہیں اور ان کے بقول سپریم کورٹ میں زیر التواء 19 ہزار مقدمات کو آئندہ چھ ماہ میں نمٹا لیا جائے گا۔ ڈاکٹر فقیر حسین کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدلیہ کو بدعنوانی سے پاک کرنے کے لئے ایک نیا نظام وضع کیا جا رہا ہے جس کے تحت سپریم کورٹ اور چاروں صوبائی ہائی کورٹس میں انسداد بدعنوانی سیل قائم کئے جا رہے ہیں اور ان سیلوں میں بدعنوان عدالتی عملے اور مقدمات کی سماعت میں تاخیر کرنے والے ججوں کے خلاف بھی شکایات کی جا سکیں گی۔
ڈاکٹر فقیر حسین کا کہنا ہے کہ کرپشن کو ہر صورت میں اور ہر حال میں روکا جائے گا اور اس نظام میں کرپشن کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ادھر ملک کے آئینی و قانونی ماہرین نے ملک کی نئی عدالتی پالیسی کا خیر مقدم کیا ہے تاہم سابق چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کے اعلان کو حکومتی سرپرستی کے حصول کا تاثر بھی ملتا تو یہ زیادہ احسن اقدام ہوتا۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو یہ اختیارات سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کو دینے پڑیں گے کیونکہ آئین کے تحت سپریم کورٹ کو یہ اختیار نہیں ہے یہ سارے اختیارات وزیر اعظم کی ہدایت پر صدر مملکت استعمال کرتا ہے اور یہ ایک ایسا قانون ہے جس کے لئے اتھارٹی چاہئے تا کہ سپریم کورٹ اس پر عملدرآمد کرا سکے۔
معروف قانون دان اکرم شیخ کے مطابق عدالتی پالیسی ساز کمیٹی سے منظوری کے بعد اس پالیسی پر مکمل عملدرآمد یقینی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قومی سطح پر چاروں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان اس پالیسی سازی کے اندر شریک تھے اور ان کو اعتماد میں لے کر جو پالیسی بنانے کا فیصلہ کیاگیا ہے اور وہ نہیں سمجھتے کہ اس پالیسی پر عملدرآمد مشکل ہوگا۔
دریں اثناء عدالتی پالیسی میں مختلف مقدمات کی سماعت مکمل کرنے کے کی مدت کے تعین پر عوامی حلقوں نے بھی خوشی اور اطمینان کا اظہار اور اسے طالبان کے نظام عدل کے مقابلے میں ایک بہتر سسٹم مہیا کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔