1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بحیرہ جنوبی چین کا تنازعہ

29 جون 2011

آسٹریلیا کے بین الاقوامی شہرت کے تھنک ٹینک کا خیال ہے کہ بحیرہ مشرقی چین اور بحیرہ جنوبی چین میں جس انداز کی جارحانہ پالیسی چین اپنانے کا ارادہ رکھتا ہے، یہ ایشیا میں کسی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/11l6P
تصویر: AP/Kyodo News

آسٹریلیا کے مشہور تھنک ٹینک لووی انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل پالیسی نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ مشرقی اور جنوبی چینی سمندری حدود میں چین کی فوجی سرگرمیاں مستقبل میں کسی بڑے خطرے کا سامان پیدا کر سکتی ہیں اور بحیرہ مشرقی چین اور بحیرہ جنوبی چین کے ارد گرد آباد ملکوں کے درمیان حالات کشیدہ ہو سکتے ہیں۔ بحیرہ جنوبی چین اور بحیرہ مشرقی چین آپس میں آبنائے تائیوان سے جڑے ہیں۔ لووی کی رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ اس سمندری خطے میں چین اپنی حاکمیت یا بڑے ملک کے طور پر حیثیت کی توثیق کا متمنی ہے اور اسی باعث یہ رویہ مسلح تنازعہ کی بنیاد بن سکتا ہے۔

اس تنازعے کی بنیادی وجہ بحیرہ جنوبی چین کی سمندری حدود پر ملکیت کا ہے۔ چین اور فلپائن کے علاوہ ملائیشیا، برونائی، تائیوان اور ویت نام بھی اس سمندر کے کچھ علاقوں پر ملکیتی دعویٰ کرتے ہیں۔ چین اور ویت نام نے اپنے سمندری معاملات کو مذاکرات سے طے کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

لووی کی رپورٹ میں بحر ہند اور بحر الکاہل کے رابطہ یا اتصال کے مقام کو عالمی طاقتوں کی توجہ حاصل ہونے کا بھی ذکر ہے۔ اس توجہ کی وجہ سے یہ سمندری حدود بحری اور فضائی قوت کے مظہر کا ایک نیا باب بن گئی ہے۔ اس خصوصی رپورٹ کے مصنفین روری میڈکالف اور راؤل ہائنرش کا خیال ہے کہ بحر ہند اور بحر الکاہل کے ملاپ کی حدود پر اقتصادی طور پر مضبوط ملکوں نے خاص فوکس کر کے وہاں اپنی عسکری قوت میں مسلسل اضافے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

USA senden Nimitz-class USS George Washington Flugzeugträger nach Südkorea Flash-Galerie
بحیرہ جنوبی چین میں امریکی طیارہ بردار جنگی بحری جہازتصویر: AP

میڈکالف اور ہائنرش کے مطابق چین اور امریکہ کے درمیان مخفی اختلاف دراصل ان سرگرمیوں کے پس منظر میں ہے۔ اس باعث اب جاپان اور بھارت بھی اپنی موجودگی کا احساس رکھتے ہیں۔ ان بڑی اقتصادی اور فوجی قوتوں کے حامل ملکوں کے جنگی بحری جہازوں کی کثرت کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے واقعات کا گاہے گاہے ذکر سامنے آتا رہتا ہے۔ لووی انسٹیٹیوٹ کے ماہرین کے خیال میں یہ چھوٹے چھوٹے واقعات مستقبل میں کسی بہت بڑے مسلح تنازعے کو جنم دے سکتے ہیں۔

بحر ہند اور الکاہل کی اندرونی صورت حال کے تناظر میں یہ اہم ہے کہ چین اپنا طیارہ بردار جنگی بحری جہاز اسی ہفتے کے دوران یا اگلے ہفتے میں سامنے لا سکتا ہے۔ اس اعلان پر کئی ملکوں کی تشویش سامنے آ چکی ہے اور انہوں نے اسے چین کی عسکری قوت میں مسلسل اضافے کا سلسلہ قرار دیا ہے۔ اسی ماہ جون کے دوران چین نے اسی سمندری حدود میں سویلین گشت کے لیے اپنے سب سے بڑے بحری جہاز کو روانہ کیا تھا۔

اس بحری جہاز کی روانگی سے فلپائن کی حکومت کی بےچینی عالمی سطح پر محسوس کی گئی۔ پیر کے روز امریکی سینیٹ نے چین کی جانب سے ویت نام اور فلپائنی بحری جہازوں کے خلاف جارحانہ رویہ اپنانے کی مذمت کی اور ایک قرارداد بھی منظور کی۔ تاہم چینی وزارت خارجہ نے اس امریکی قرارداد کو مسترد کردیا ہے۔ امریکہ اور فلپائن کے بحری جہاز اسی سمندری حدود میں گیارہ روزہ فوجی مشقوں میں بھی مصروف ہیں۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں