1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بان کی مون کا میانمار کا دورہ

رپورٹ :عابد حسین ،ادارت:عدنان اسحاق3 جولائی 2009

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کر میانمار آمد کا خاص طور پر نیشنل لیگ برائے ڈیموکریسی کی جانب سے پرجوش خیر مقدم کیاگیا ہے۔ بان کی مون نے اِس دورے کو مشکل قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/Ifxq
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، بان کی مُونتصویر: AP

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون آج میانمار پہنچ رہے ہیں۔ان کے اس دورے کو تاریخی اہمیت حاصل ہے اور ان کی آمدکا وہاں کی آپوزیشن جماعتوں، خاص طور پر نیشنل لیگ برائے ڈیموکریسی کی جانب سے پرجوش خیر مقدم کیا ہے۔

نیشنل لیگ برائے ڈیموکریسی کے کارکنوں کاخیال ہے کہ سیکریٹری جنرل کی آمد سے مقیّد نوبل انعام یافتہ خاتون لیڈر آؤنگ سان سوچی کی گرفتاری اور جاری مقدمےکوعالمی سطح پرایک نئی پہچان حاصل ہو سکتی ہے۔ جمہوریت کے حامیوں کا خیال ہے کہ ہو سکتا ہے کہ دورے کے دوران بان کی مون گرفتار سیاسی لیڈر سے ملاقات بھی کر سکیں۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی نوبل انعام یافتہ گرفتار لیڈر سے ملاقات شیڈیول کی گئی ہے یا نہیں۔

Myanmar Militär Zeremonie in Naypyitaw
ماینمار کے سب سے سینئر فوجی جنرل تھان شوئے، نئے دارالحکومت میں پریڈ کی سلامی کے دورانتصویر: AP

میانمار میں مقیم سفارت کاروں کے مطابق بان کی مون کے دورے کی تفصیلات سامنے نہیں آسکی ہیں البتہ سیکریٹری جنرل کے میانمار کے لئے خصوصی نمائندے ڈاکٹر ابراہیم گمباری فوجی حکام کے ساتھ دورے کی تفصیلات طے کرنے میں مصروف رہے ہیں۔ ابراہیم گمباری سن دو ہزار چھ میں اپنی تعیناتی کے بعد سے آٹھ مرتبہ میانمار کا دورہ کر چکے ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ ابراہیم گمباری سیکریٹری جنرل کو اپنے تازہ دورے کی رپورٹ بھی اُن کی ینگون آمد سے قبل ارسال کر چکے ہیں۔

دوسری جانب سنگاپور میں بان کی مون نے بتایا کہ وہ میانمار پہنچنے کے بعد فوجی حکومت کے سب سے سینئر جنرل Than Shwe سے ملاقات کرنے نئے دارالحکومت Naypyidaw جائیں گے۔ سنگا پور میں بان کی مون نے یہ بھی کہا کہ وہ جنرل Than Shwe سے ملاقات کے دوران تمام سیاسی قیدیوں بشمول آؤنگ سان سوچی کی رہائی کی بھی بات کریں گے۔

Myanmar Birma Burma Aung San Suu Kyi und Ibrahim Gambari
ماینمار کی مقید سیاسی لیڈر اونگ سان سوچی کے ہمراہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی سفیر ابراہیم گمباریتصویر: AP

دوسری جانب سفارت کاروں کا خیال ہے کہ بان کی مون کا دورہ تاریخی ضرور ہے لیکن اِس دوران کسی بڑی تبدیلی کی توقع رکھنا خام خیالی ہے۔ بان کی مون کا دورہ اپنے اہداف کے حصول نہ ہونے کے تناظر میں ناکامی سے دوچار ہو سکتا ہےاور اِس کے قوی امکانات ہیں کیونکہ فوجی حکومت، ہو سکتا ہے اُن کی معرُوضات تو سنے مگر کوئی قدم نہ اٹھائے۔

اقوام متحدہ کے ذرائع کا خیال ہے کہ بان کی مون اپنے دورے کے حوالے سے انتہائی پُر اُمید ہیں اور وہ دوسرے سفارتکاروں کے خیالات کو غلط ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اپنے دورے کے حوالے سے بان کی مون کا کہنا ہے کہ وہ بے یقینی کے بادلوں کے سائے میں میانمار جا رہے ہیں کیونکہ اُن کی کوشش ہے کہ وہاں تبدیلیاں لائی جائیں۔ سیکریٹری جنرل نے یہ بھی واضح کیا کہ اُن کے دورے کے دوران کسی بڑی تبدیلی کے امکان بہت کم ہیں کیونکہ یہ ایک انتہائی مشکل مشن ہے۔

میانمار کے دورے کے دوران بان کی مون کی ملاقات رجسٹرڈ سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں سے نئے دارالحکومت میں کروائی جا رہی ہے۔ اِن میں آؤنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت نیشنل لیگ برائے ڈیموکریسی بھی شامل ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اِس ملاقات میں سوچی موجود نہیں ہو گی۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے میانمار پہنچنے کے ساتھ ہی گھر پرنظر بندی کی شرائط کی خلاف ورزی پر آؤنگ سان سوچی کے خلاف جاری مقدمے کی دوبارہ سماعت بھی شروعات ہو رہی ہے۔

بان کی مون کے میانمار کے دورے کے حوالے سے انسانی حقوق کی کئی بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بان کی مون کو یہ دورہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ بعد میں فوجی حکومت اِس کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرے گی۔