1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بانو آپا بھی چلی گئیں

4 فروری 2017

پاکستان کی معروف خاتون ادیب بانو قدسیہ ہفتے کی شام لاہور میں انتقال کر گئیں۔ ان کی عمر اَٹھاسی برس تھی اور وہ طویل عرصے سے علیل تھیں۔

https://p.dw.com/p/2Wyvg
Bano Qudsia
تصویر: privat

بانو قدسیہ کو دس روز قبل طبیعت کے زیادہ ناساز ہونے پر لاہور کے ایک مقامی ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ ان کے جسدِ خاکی کو مقامی ہسپتال سے ان کی رہائش گاہ  داستان سرائے’ سی بلاک‘ ماڈل ٹاؤن منتقل کر دیا گیا ہے، جہاں پر ان سے عقیدت رکھنے والے لوگوں کی بہت بڑی تعداد اس وقت موجود ہے۔ ناول نگار، افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس بانو قدسیہ 28 نومبر 1928ء کو مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئیں۔ تقسیم ہند کے بعد وہ اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان منتقل ہو گئیں تھیں۔ انہوں نے کنیئرڈ کالج برائے خواتین لاہور سے گریجویشن اور1951ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے اردو کیا۔ وہ پاکستان کے مشہور ادیب اشفاق احمد (تلقین شاہ) کی اہلیہ تھیں۔پاکستان کی حکومت نے بانو قدسیہ کو ان کی ادبی خدمات کے عوض تمغہ امتیاز سے نوازا تھا۔ 2010 ء میں پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز نے انہیں کمالِ فن ایوارڈ بھی دیا تھا۔

بانو قدسیہ نے اردو اور پنجابی زبان میں دو درجن سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ ان میں ناول، افسانے، مضامین اور سوانح بھی شامل ہیں۔ بانو قدسیہ نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے متعدد ڈرامے بھی لکھے جنہیں لوگوں نے بہت پسند کیا۔ بانو قدسیہ کی کتابوں میں سورج مکھی، فٹ پاتھ کی گھاس، ہجرتوں کے درمیان، مرد آپریشن، موم کی گلیاں اور شہرِ بے مثال بھی شامل ہیں۔ ان کے ایک ناول راجہ گدھ کو بین الاقوامی شہرت ملی۔ اس ناول کو اردو کے سب سے زیادہ پڑھے جانےوالے ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کر تے ہوئے پاکستان کے ممتاز ادیب محمود شام نے بتایا کہ بانو قدسیہ کی رحلت پاکستان کے ادبی حلقوں کے لیے انتہائی دکھ کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ بانو قدسیہ اور اشفاق احمد دونوں اردو زبان کے لیجینڈ تھے۔ انہوں نے اردو فکشن میں نئی جہتیں متعارف کروائیں اور ادبی میدان میں نئے نئے تجربے کیے ۔ محمود شام کے مطابق بانو قدسیہ کی تحریروں میں پاکستان کی ثقافت، عام لوگوں کی زندگی، روحانیت، تصوف اور حیرتوں پر مبنی جذبات ملتے ہیں،’’انہوں نے علامتی انداز میں جاگیر داروں اور معاشرے میں ظلم اور جبر کرنے والوں کے خلاف بھی قدم اٹھایا۔ پاکستان کی نوجوان نسل ان کی تحریروں پر نثار ہوئی۔ اردو ادب میں ان کا کنٹری بیوشن بہت عمدہ تھا۔‘‘

پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ بانو قدسیہ پاکستان کا سرمایہ تھیں۔ ان کی رحلت سے ادب کے شعبے میں ایک خلا پیدا ہو گیا ہے۔ اردو ادب کے شعبے میں ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ پنجاب کے گورنر، وزیر اعلیٰ اور اطلاعات کی وفاقی وزیر کے علاوہ سیاسی اور ادبی حلقوں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات نے بانو قدسیہ کی وفات پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔