باغیوں کے خلاف جنگ جاری رہے گی، سری لنکا
30 جنوری 2009’نہیں، یہ غلط ہے۔ غلط معلومات ہیں۔ شمالی سری لنکا میں کوئی تباہی نہیں ہوئی ہے۔ ہم شمال میں یہ مسئلہ پہلے بھی بھگت چکے ہیں۔ یہ تنظیمیں پروپگینڈا اور افراتفری پھیلا رہی ہیں‘ یہ الفاظ ہیں سری لنکا کے صدر مہندا راجاپکشے کے۔
ان ’تنظیموں‘ سے سری لنکا کے صدر مہندا راجا پکشے کی مراد اقوامِ متحدہ اور ہلالِ احمر جیسی تنظیموں سے ہے جنہوں نے سری لنکا کے شمال میں تامل باغیوں کے خلاف سری لنکا کی فوجی کارروائی کے دوران لاکھوں افراد کے اس تنازعے میں پھنس جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
راجا پکشے کا کہنا ہے: ’کوئی جنگ بندی نہیں ہوگی۔ ہم جنگ کیوں بند کریں؟ تین دہائیوں کے بعد ہم باغیوں کو قابو کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اور ہم کو تین دہائیوں سے جنگ بندی کا تجربہ ہے۔ جب بھی ہماری جانب سے جنگ بندی کی جاتی ہے، تامل باغی اس جنگ بندی کو دوبارہ منظّم ہونے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ اس لیے یہ تنازعہ تیس سال سے جاری ہے۔ ہم یہ غلطی اب دوبارہ نہیں کریں گے۔ ہم جنگ بند نہیں کریں گے‘
جمعرات کے روز اقوامِ متحدہ اور ہلالِ احمر نے ایک بیان میں کہا کہ سری لنکا کے شمالی علاقوں میں فوج اور باغیوں کے درمیان لڑائی میں کم از کم پانچ لاکھ افراد کو سنگین مشکلات کا سامنا ہے اوران میں سینکڑوں افراد ایسے ہیں جو زخمی اور بیمار ہیں اور وہ کشیدگی کا شکار علاقوں سے باہر نہیں نکل سکتے۔ اقوام ِمتحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نئی پلّے نے اس تنازعے پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ دونوں جانب سے انسانی حقوق کی سخت خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی فریقین پر اس نوعیت کے الزامات عائد کیے ہیں۔
اس حوالے سے اقوام ِ متحدہ کے ترجمان گورڈن وائس کا کہنا ہے: ’جہاں تک اقوامِ متحدہ کا تعلق ہے ہمارا یہ موقف ہے کہ ہمارے عملے نے درجنوں اموات اور زخمی افراد کو دیکھا ہے۔ اقوام ِمتحدہ نے صبح ایک قافلے کی رہبری بھی کی ہے جس میں لڑائی کی وجہ سے زخمی ہونے والے سینکڑوں افراد شامل تھے‘
دریں اثناء سری لنکا کی افواج نے تامل باغیوں کے خلاف پیش قدمی جاری رکھی ہوئی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس نے شمالی سری لنکا میں باغیوں کے اہم ٹھکانوں پر قبضہ کرلیا ہے۔