1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

Obama in berlin

کشور مصطفی25 جولائی 2008

ماہرین کے مطابق امریکی سینیٹر واضع طور پر اپنے ان دوروں کے ذریعے صدارتی مہم چلا رہے ہیں۔ جکہ اوبامہ نے کہا کہ یہ عوامی خطاب انکی انتخابی مہم کا حصہ نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/EjH0
تصویر: AP

باراک اوبامہ نے برلن میں تقریبا دولاکھ کے مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغان عوام کو یورپی اورامریکی فوجیوں اورامداد کی ضرورت ہے۔ اوباما نے افغانستان میں مزید امریکی اوراتحادی افواج بھیجنے پرزور دیا ہے۔ افغانستان کی تعمیرِنویورپ اورامریکہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اوباما کے اس بیان پر جرمن سیاستدانوں کی طرف سے خاموشی اختیار کی گئی ۔

اوباما کی تقریرکا مرکزی نقطہ یورپ اورامریکہ کے باہمی تعلقات تھا۔ انھوں نے ساٹھ سال قبل جرمنی کی امداد کے لئے امریکہ کی طرف سے باہم پہنچائی جانے والے Berlin AirLift کی قسم کھا تے ہوئے کہا کہ امریکہ کے لئے یورپ سے بڑھ کر کوئی ساتھی یا پارٹنر نہیں۔ امریکہ اور یورپ کو مل کر عراق کی جنگ اوردنیا بھر سے دھشت گردی کے خاتمے کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی۔ دنیا بھر میں پائے جانے والے انتہاپسندی کے کنؤوں کو مکمل طور پر خشک کرنا ہوگا۔

Obama in Berlin - Rede
تصویر: AP



اوُباما کے دورے پرجرمن باشندوں اورجرمنی میں آباد امریکیوں کی جانب سے جس جوش و خروش کا اظہار دیکھنے میں آیا اسکی ایک اہم وجہ کا ذکر کرتے ہوئے جرمنی میں متعین سابق امریکی سفیر John Kornblum نے کہا کہ سب سے پہلی بات یہ کہ اُوباما یورپ کوایک پارٹنر یا ایک ساتھی کی حیثیت سے دیکھتے ہیں، نہ کہ ایک حامی کی حیثیت سے۔ جبکہ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑنا ہے کہ بُش کے لئے یورپ محضں ہاں میں ہاں ملانے والے ایک فریق کی حیثیت رکھتا ہے۔ بہت سے جرمن باشندوں کے لئے باراک اوُباما ایک سیاح فام امریکی لیڈر ہونے کے ناطے دلچسپ اورغیرمعمولی کشش رکھتے ہیں۔ اکثریت کا کہنا ہے کہ وہ بُش کے دور سے تھک چُکے ہیں۔

Bildgalerie Obama in Berlin Händedruck mit der Kanzlerin
باراک اوبامہ اور انگیلا میرکلتصویر: AP

چھیالیس سالہ امریکی ڈیموکریٹ لیڈر اور صدارتی اُمیدوار باراک اوباما آج صبح جب جرمن دارلحکومت برلن پُہنچے۔ تو ایوانِ چانسلرمیں ان کا استقبال جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کیا۔ دونوں کے مابین یہ ملاقات ایک گھنٹے تک جاری رہی جس میں تحفظ ماحولیات، بین الاقوامی تجارت اور بین الاقیانوسی تعلقات جیسے موضوعات کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ جرمن چانسلر نے باراک اوُباما کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات پر مُسرت کا اظہار کیا۔ چانسلرمیرکل کے بعد اوبُاما نے برلن کے دفترِ خارجہ میں جرمن وزیرخارجہ فرانک والٹرشٹائن مائر سے ملاقات کی۔ تاہم اس ملاقات کے بعد کسی قسم کا سرکاری بیان سامنے نہیں آیا۔



افغانستان،عراق اسرائیل اور اب جرمنی۔ امریکی سینیٹر اُوباما واضح طور پر اپنے ان دوروں کے ذریعے صدارتی انتخابات کی مہم چلا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انکی یہ کوشش بھی تھی کہ وہ برلن کے اُس تاریخی مقام پر جرمن عوام سے خطاب کریں جہاں سے سابق امریکی صدور رونلڈ ریگن، اور بل کلنٹن کر چُکے ہیں۔ یعنی برانڈن برگ گیٹ کے سامنے ۔ تاہم جرمن چانسلرنے گزشتہ روز ہی ایک پریس کانفرنس میں اس بارے میں اپنا فیصلہ واضح کر دیا تھا۔ انُھوں نےکہا تھا کہ برانڈن برگ گیٹ کے بارے میں، میں نے بارہا وضاحت کی ہے کہ یہ جگہ امریکی اور دیگر ممالک کے صدور کے خطاب کے لئے تو موزوں ہے لیکن کسی صدارتی انتخابی مہم کے لئے نہیں۔ اوُباما زیگر زؤئلے یا وکٹری کولم کے سامنے عوام سے خطاب کریں گے۔

Bildcombo Barack Obama Siegessäule Berlin
تصویر: AP/DW


آج سے شروع ہونے والے اوباما کے یورپی دورے کی یہ واحد عوامی تقریر ہے۔ اْنہوں نے اپنی آدھے گھنٹے کے اس عوامی خطاب کواپنی انتخابی مُہم کا حصہ نہیں کہا۔ اوباما کا کہنا تھا کہ وہ ایک امریکی اورایک عالمی شہری کی حیثیت سےعوامی خطاب کر رہے ہیں۔ اباما نے افغانستان میں اتحادی افواج کی سرگرمیوں میں اضافے پر زور دیا۔ دوسری طرف اباما کا برلن کا دورہ، جارج بُش کے دور میں یورپ میں امریکی جارحانہ خارجہ اورعسکری پالیسی کے سبب عوام کے اندر پیدا ہونے والے عدم اعتماد کو دورکرنے کی کوشش کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ یورپی عوام ایک نئی امریکی قیادت کے منتظر ہیں اوراس اعتبارسے سیاح فام امریکی لیڈر نہ صرف لوگوں کے لئے ایک خوشگوارتبدیلی ہے بلکہ ان سے امریکہ اور یورپ میں آباد افریقی اورلاطینی امریکی باشندوں کوگہری اُمیدیں وابستہ ہیں۔ برلن کے وسط میں واقع وکٹری کالم کے ارد گرد کا علاقہ کل شب سے ہی مکمل طور پر بند کر دیا گیا تھا ۔ اس موقع پر تمام بڑی شاہراہوں پر پولیس کا سخت پہرہ تھا اور جرمن دارلحکومت میں ہائی سکیورٹی اورغیر معمولی انتظامات کئے گئے تھے۔