1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

باراک اوباما کے دَورِ صدارت کے پہلے 100 روز

29 اپریل 2009

امریکی صدر باراک اوباما کو اقتدار میں آئے پورے ایک سو روز ہو رہے ہیں۔ پہلے سیاہ فام صدر سے وابستہ کی جانے والی توقعات کہاں تک پوری ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/HgdP
صدر اوباما نے اپنے پہلے سو دنوں کے دوران کئی اہم فیصلے کئےتصویر: AP/DW-Montage

اِن پہلے تقریباً تین مہینوں میں امریکی صدر باراک اوباماکی کارکردگی کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ اُن کے دَورِ حکومت کے پہلے ایک سو دن آسان ہی رہے۔ اُنہیں سب سے زیادہ یہ کرنا تھا کہ اپنے پیش رَو اور اُس کی حکمتِ عملی سے مختلف نظر آئیں۔ یہ کوئی بہت بڑا چیلنج نہیں تھا۔ جارج ڈبلیو بُش اپنے عہدے سے رخصت ہوئے تو عوام میں اُن کی مقبولیت کا گراف اتنا نیچے تھا کہ جتنا کسی بھی سابقہ امریکی صدر کے لئے ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک ایسے امریکی صدر کی خواہش کی جا رہی تھی، جس میں بس ایک خوبی ہو کہ وہ بُش نہ ہو۔

باراک اوباما نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی درست اقدامات کا اعلان کیا کہ امریکی حراستی کیمپ گوانتانامو کو بند کر دینے، جبر و تشدد کا سلسلہ روک دئے جانے اور عراق سے امریکی دَستوں کے انخلاء کے احکامات جاری کئے، روس کی طرف مکالمت کا ہاتھ بڑھایا اور ایک ایسا معاشی پیکیج پیش کیا، جس میں تعلیم و تربیت اور صحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کا ذکر کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی اُنہوں نے توانائی کے شعبے میں ایک نئی حکمتِ عملی اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ اِس فہرست میں اور بھی کئی اقدامات کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔

Tschechische Republik Obama Prager Burg Rede
امریکہ سمیت دنیا بھر کے عوام نے اوباما کو بطور امریکی صدر خوش آمدید کہاتصویر: AP

اِن پہلے ایک سو روز میں اوباما کے ایجنڈے کا حجم ہوش رُبا رہا۔ اِس دوران اُن کی ملٹی ٹاسکنگ یعنی ایک ہی وقت میں اکٹھے کئی کام کرنے کی صلاحیت اُبھر کر سامنے آئی۔

بلاشبہ یہاں وہاں اُن کی کچھ کمزوریاں بھی سامنے آئیں۔ مثلاً وہ یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ آیا بُش دَورِ حکومت میں تشدد کے احکامات کے اجراء کے حوالے سے کوئی تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جائے۔ پارٹی سطح سے بالاتر ہو کر ری پبلکنز کے ساتھ کام کرنے کے عزم کو بھی وہ ابھی تک عملی شکل نہیں دے پائے۔ تاہم مجموعی طور پر وہ پُر سکون رہتے ہیں، اشتعال میں نہیں آتے اور اپنے کام پر پوری توجہ مرکوز کئے رکھتے ہیں۔

اپنے دَورِ حکومت کے آغاز پر باراک اوباما نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ زیادہ عمر کا نہ ہونے اور سیاسی عہدوں کا زیادہ تجربہ نہ رکھنے کے باوجود وہ اُس منصب کے اہل ہیں، جو اُنہیں سونپا گیا ہے۔

تین بحری قزاقوں کی ہلاکت اور ایک مال بردار بحری جہاز کے کپتان کا بچایا جانا یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ اوباما بائیں بازو کے کوئی ایسے نرم دل انسان بھی نہیں ہیں، جیسا کہ انتخابی مہم کے دوران ری پبلکنز اُنہیں ثابت کرنا چاہ رہے تھے۔ پاکستانی علاقوں پر تاک کر کئے جانے والے وہ حملے بھی اوباما کے دور میں بدستور جاری ہیں، جن پر اُن کے کئی حامی ناپسندیدگی کا بھی اظہار کررہے ہیں۔ ایسے میں یہ واضح ہے کہ خواہ اوباما وینزویلا کے صدر اوگو چاویز سے ہاتھ ہی کیوں نہ ملاتے ہوں اور ایران کو مذاکرات کی پیشکش ہی کیوں نہ کرتے ہوں لیکن جب قومی مفاد کی بات آتی ہے تو وہ امریکی کی فوجی طاقت استعمال کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔

جہاں تک امریکی شہریوں کے اعتماد کا تعلق ہے، جریدے ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کے ایک سروے میں تقریباً ساٹھ فیصد شہریوں نے صدر کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا۔ اوباما کے پہلے ایک سو دنوں کا میزانیہ مثبت ہے لیکن وہ کس حد تک درست پالیسیاں اختیار کریں گے، اِس کا اندازہ آئندہ چند مہینوں بلکہ برسوں میں ہی ہو سکے گا۔

کرسٹینا بیرگمان / امجد علی