1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایڈز کے وائرس سے نمٹنے کی جستجو جاری

20 ستمبر 2011

سائنس دانوں نے ایک تجربے کی مدد سے ایڈز کے وائرس کو انسان کے مدافعاتی نظام پر اثر انداز ہونے سے روکنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اس سے ایڈز سے مدافعت کی ویکسین بنانے میں خاصی مدد ملنے کی امید ہے۔

https://p.dw.com/p/12cZN
تصویر: picture alliance/dpa

امریکی اور یورپی محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر ہیومن امیون ڈیفیشنسی وائرس یعنی ایچ آئی وی کی جِھلی سے کولیسٹرول کا خاتمہ کر دیا جائے تو یہ انسان کے مدافعاتی نظام کو متاثر نہیں کر سکتا۔ تحقیق کے سربراہ، امپیریل کالج لندن سے وابستہ آڈریانو بواسو کے مطابق اس طرح اس وائرس کو اسلحے سے عاری فوج کی مانند بے بس کیا جا سکتا ہے۔ سائنس دان اب اس کوشش میں ہیں کہ اس طریقے کے ذریعے ایچ آئی وی وائرس کو ناکارہ کرنے اور بالآخر ویکسین بنانے میں کامیابی حاصل کی جا سکے۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ جو شخص ایچ آئی وی وائرس سے متاثر ہو جاتا ہے، عمومی طور پر اس کے جسم میں innate مدافعاتی نظام وائرس کے مقابلے پر آ جاتا ہے تاہم یہ وائرس اس نظام کو حد سے زیادہ ردعمل کرواتا ہے اور یوں اس کی اگلی دفاعی لائن adaptive مدافعاتی ردعمل کمزور پڑ جاتی ہے۔

Blood نامی جریدے میں شائع ہونے والی تازہ تحقیق کے مطابق بواسو اور ان کے ساتھیوں نے جب ایچ آئی وی وائرس کی جھلی سے کولیسٹرول کا خاتمہ کر دیا تو یہ adaptive مدافعاتی ردعمل کو کمزور کرنے میں ناکام رہا۔ اس طرح ٹی سیلز نامی خلیے وائرس کے خلاف اپنی بھرپور کارکردگی دکھا پائے۔

Memoclick Brasilien KW 5 2011 AIDS
دنیا بھر میں سالانہ بنیادوں پر قریب 18 لاکھ افراد ایڈز کے وائرس کے سبب موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں

ایڈز سے نمٹنے کے لیے اس وقت Bristol Myers Squibb , Merck , Pfizer اور GlaxoSmithKline نامی کمپنیاں ادویات بنا رہی ہیں۔ ان کمپنیوں سے وابستہ اور آزاد پیمانے پر کام کرنے والے سائنس دان طویل عرصے سے ایچ آئی وی وائرس سے نمٹنے کے لیے مؤثر ویکسین بنانے کی جستجو میں مگن ہیں تاہم فی الحال انہیں محدود کامیابی ہی نصیب ہو سکی ہے۔ 2009ء میں تھائی لینڈ کے اندر 16 ہزار رضا کاروں پر کی گئی ایک تحقیق میں پہلی بار ثابت ہوا تھا کہ ویکسین کی مدد سے ایچ آئی وی سے بچا جا سکتا ہے تاہم اس میں کامیابی کے محض 30 فیصد امکانات کے سبب سائنس دانوں نے دوبارہ نئی تحقیق کے لیے کمر باندھ دی تھی۔

اسی طرح رواں سال مئی میں امریکی سائنس دانوں نے دعویٰ کیا کہ ایچ آئی وی سے متاثرہ ایک بندر پر تجربے کے دوران وہ ایک سال تک بندر کے جسم میں انفیکشین کو پھیلنے سے روکنے میں کامیاب رہے، جو ویکسین بنانے میں مددگار ہو سکتا ہے۔

 ایک اندازے کے مطابق سال 2009ء میں 26 لاکھ نئے افراد اس وائرس کا شکار ہوئے اور دنیا میں اس وقت قریب ساڑھے تین کروڑ افراد اس وائرس کے ساتھ جی رہے ہیں۔ ایچ آئی وی وائرس کے پھیلنے کے ذرائع میں غیر محفوظ سیکس، وائرس سے متاثرہ سرنج کا استعمال، چھاتی کا دودھ اور متاثرہ خون کا انتقال شامل ہیں۔ اس وائرس کی خطرناک بات یہ ہے کہ یہ جسم میں چھپا بھی رہتا ہے اور محض ان خلیوں کو نشانہ بناتا ہے جو اس سے مقابلہ کرنے کے لیے جسم کے مدافعاتی نظام کے ذریعے بھیجے جاتے ہیں۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں