ایٹمی توانائی ایجنسی کا نیا سربراہ، سفارتی سرگرمیاں عروج پر
27 مئی 2009ان سفارتی سرگرمیوں کا آغاز اس بین الااقوامی ادارے کے ڈائریکٹر جنرل محمد الا بارادئی کے اس بیان کے بعد ہوا تھا جس میں انہوں نے اس سال نومبر میں اپنی مدت ملازمت کے اختتام کے بعد نئی مدت کے لئے اپنی خدمات کی عدم دستیابی کا عندیہ دیا تھا۔
ایٹمی توانائی کے بین الااقوامی ادارے کے بورڈ آف گورنرز کا ایک اجلاس گذستہ روز آسٹریا کے دارلحکومت ویانا میں منعقد ہوا، جس کی صدارت ادارے کی سربراہ طاؤس فیروخی نے کی۔ اس اجلاس میں ادارے کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل محمد البارادئی کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد نئے سربراہ کے انتخاب کے لئے لائحہ عمل وضع کیا گیا۔
اس اجلاس کے دوران IAEA کے بورڈ آف گورنرزنے نئے سربراہ کے انتخاب کے لئے پانچ نامزد امیدواروں کے خیالات اور منصوبوں کو سنا اور جانچا۔ ان پانچ امیدواروں میں شامل ہیں: ادارے میں جاپان کے ایلچی یوکیا امانو، جنوبی افریقہ کے عبدالصمد منتی، اسپین کے سفارت کار لوئی اشاوری، بیلجئم کے سابقہ وزیردفاع ژَوں پال پونسلے اور سلووینیہ کے سابق سفارت کار ایرنیسٹ پیٹرک۔
اس اجلاس میں پانچوں امیدواروں نے ادارے کے سیاسی اور تیکنیکی کردار کو ترقی پذیر ممالک کی نگاہ میں بہتر کرنے پر زور دیا، تاکہ مختلف ممالک کے مابین جوہری توانائی کے حوالے سے پائے جانے والے تنازعات کو حل کیا جاسکے۔
بین الااقوامی ادارہ برائے جوہری توانائی کے 35 رکن ممالک کے مندوبین اس سال جون میں ادارے کے نئے سربراہ کے انتخاب کے لئے ووٹنگ میں حصہ لیں گے، کیونکہ ادارے کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل محمد البارادئی اس سال نومبر میں اپنی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد مسعفی ہوجائیں گے۔ البارادئی نے، جو ادارے کے چوتھے سربراہ ہیں، اس جوہری ایجنسی کے مقاصد کے حوالے سے کہا: ’’جتنا زیادہ ہم حفاظتی اقدامات کے شعبے میں سرمایہ کاری کریں گے، اُتنا ہی اِس بات کا امکان زیادہ ہو گا کہ ہم دنیا کو ایک محفوظ مقام بنا سکیں گے۔‘‘
چند تجزیہ نگاروں کے مطابق اس کا جواب تو وقت ہی دے گا کہ البارادئی دنیا کو پرامن بنانے کے لئے خود اپنی کوششوں میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ تاہم ماہرین کی رائے میں البارادئی اس بین الاقوامی ادارے میں اپنے جانشین کے لئے، شمالی کوریا اور ایران کے جوہری منصوبوں کے شکل میں کافی کٹھن مسائل چھوڑ کر جا رہے ہیں۔