1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

''این آر او سے فائدہ اٹھانے والے مستعفی ہوجائیں''

22 نومبر 2009

قومی مصالحتی آرڈیننس یعنی NRO سے مستفید ہونے والے افراد کی لسٹ منظر عام پر آنے کے بعد اپوزیشن کے ساتھ ساتھ حکومت کی حلیف جماعتیں بھی فائدہ اٹھانے والے عہدے داروں کے استعفوں کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/Kd0C
صدر آصف زرداری حلف اٹھاتے ہوئے فائل فوٹوتصویر: Abdul Sabooh

پاکستان میں صدر آصف علی زرداری سمیت ملک کی دیگر اہم اعلیٰ حکومتی شخصیات کے مستقبل کے حوالے سے بھی مختلف قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

اپوزیشن اور حکومت کی اتحادی جماعتوں کے قائدین نے ’این آر او‘ سے مستفید ہونے والے اعلیٰ عہدیداروں سے مستعفی ہو کر عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما حاجی عدیل نے کہا:”وہ تمام افراد جن کے خلاف جرائم کے مقدمات ہیں اپنے عہدوں سے مستعفی ہوکر مقدمات کی باقاعدہ پیروی کریں۔ اپنے مقدمات میں بری ہونے کی صورت میں وہ بے شک واپس اپنے عہدوں پر آئیں تا کہ کل یہ کوئی نہ کہے کہ یہ کیس اس نے لڑا ہے چونکہ وہ عہدیدار تھا، اس لئے عدالتوں نے اس عہدے کا اسے فائدہ دیا اور اسے بری کر دیا۔“

اپوزیشن جماعت مسلم لیگ قائداعظم کے سیکرٹری جنرل مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ عوام میں سیاستدانوں کی ساکھ بحال کرنے کے لئے پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کو عہدوں کی قربانی دینی ہوگی۔’’

Pakistans Innenminister Rehman Malik auf PK zum Tod des Talibanführers Mehsud
پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملکتصویر: AP

وزیر دفاع اور وزیر داخلہ، دونوں ’این آر او‘ سے مستفید ہونے والے افراد کی فہرست میں شامل ہیں، جس سے حکومت کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان کی ساکھ بحال کرنے کے لئے میں وزیراعظم سے اپیل کرتا ہوں کہ بڑی قربانی سے بچنے کے لئے بہتر یہی ہوگا کہ چھوٹی قربانی دے دی جائے۔ کیونکہ اسی طرح حکومت کی ساکھ بحال ہو سکتی ہے۔“

البتہ تحریک انصاف پارٹی کے سربراہ عمران خان نے باقی جماعتوں سے دو قدم آگے جاتے ہوئے پوری حکومت سے مستعفی ہو کر وسط مدتی انتخابات منعقد کرانے کا مطالبہ کیا۔’’ہم مڈ ٹرم انتخابات کا اس لئے مطالبہ کر ر ہے ہیں کیونکہ اس سے جمہوریت کمزور نہیں بلکہ مضبوط ہوگی۔ وسط مدتی انتخابات جمہوری عمل کا ایک حصہ ہیں۔ اگر حکومت پر کرپشن کے مقدمات آجائیں تو اس پر عوامی اعتماد کیسے بحال رہ سکتا ہے۔“

دوسری جانب قانونی حلقوں میں اس سوال پر بحث بھی زور پکڑتی جا رہی ہے کہ کیا آئینی تحفظ حاصل ہونے کے سبب صدرمملکت پر عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اس حوالے سے معروف قانون دان ایس ایم ظفر نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا:’’ہمارے کچھ قانون دان یہ کہتے ہیں کہ صدر مملکت عدالت میں بلائے نہیں جا سکتے، اس لئے ان پر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ لیکن میں اس چیز سے متفق نہیں ہوں۔ میری رائے میں اور جس طرح میں نے آئین کو پڑھا ہے، اس کے مطابق مقدمہ شروع کیا جا سکتا ہے لیکن انہیں بلایا نہیں جا سکتا۔‘‘

ادھر سیاسی پیشین گوئیوں کے لئے مشہور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ اٹھائیس نومبر کو ’این آر او‘ کی قانونی موت کے بعد اس متنازعہ آرڈیننس سے فائدہ اٹھانے والوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف عدالتوں کے پاس ہی رہے گا۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: گوہر نذیر گیلانی