1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایشیائی ممالک میں نظام صحت کی صورتحال

11 اپریل 2011

ایشیا کے بیش تر ممالک ایسے ہیں جہاں کی آبادی تشویش ناک حد تک تیزی سے بڑھ رہی ہے تاہم وہاں کے ناقص نظام صحت کی وجہ سے اموات کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے-

https://p.dw.com/p/10rGX
ایشیائی ممالک میں صحت کا ناقص نظامتصویر: fotolia

چین کے صحت کے نظام کو انسانی تاریخ کا سب سے بڑا نظام صحت کہا جاتا ہے جس کی صورتحال 2003 ء سے پہلے خاطر خواہ نہیں تھی، تاہم 2003 ء میں دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے اس ملک میں ایک ہمہ گیر ہیلتھ انشورنس نظام متعارف کرایا گیا جو تمام عوام کے لیے تھا۔ ساتھ ہی بیجنگ حکومت نے متعدد اہم ادویات کو سبسیڈائز کر دیا۔ گزشتہ ماہ چینی حکومت نے 1.34 بلین انسانوں کے لیے صحت کی مزید سہولتیں فراہم کرنے، ہیلتھ سروسز کو بہتر بنانے اور علاج اور ادویات پر آنے والے اخراجات کی رقم مریضوں کو واپس دلوانے کے لیے صحت کے شعبے کا بجٹ بڑھانے کا وعدہ کیا ہے-

Singapur Chinatown Getrocknete medizinische Produkte in Chinatown
چین میں قدیم طریقہ علاج: جڑی بوٹیوں کے ذریعےتصویر: picture-alliance / dpa

دنیا کے مختلف معاشروں میں صحت کے نظام میں تبدیلیاں ایک ایسے وقت میں لائی جا رہی ہیں جب عالمی سطح پر انسانوں کو کہنہ امراض، غیر متعدی بیماریوں مثلا امراض قلب، فالج، ذیابیطس اور کینسر جیسی بیماریوں کے علاج پر بہت زیادہ اخراجات آتے ہیں۔ چین میں اوسطاً ہر مریض اپنے علاج پر آنے والے خرچ کا 40 فیصد خود اپنی جیب سے ادا کرتا ہے۔

ہانگ کانگ:

ہانگ کانگ کی حکومت ہیلتھ کیئر کے اخراجات کا 90 فیصد حصہ خود ادا کرتی ہے، جو کہ زیادہ تر دوسرے اور تیسرے مرحلے میں اسپیشلسٹ کیئر پر آتے ہیں۔ عوام کو جنرل پریکٹیشین یا عام ڈاکٹر کی فیس خود دینا پڑتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ سالوں میں پبلک سیکٹر پر صحت کے اخراجات کا بوجھ اور بڑھے گا- 2007 ء سے 2012 ء کے درمیان ہیلت بجٹ 16.1 فیصد طے کیا گیا تاہم اسے بڑھا کر 17 فیصد کرنا ہوگا- ہانگ کانگ میں حکومت اب پرائیوٹ ہیلتھ انشورنس کے فروغ پر زور دے رہی ہے-

Kinder in Indien Monsoon Überschwemmung holen sich Kleidung ab
بھارت میں متعدی بیماریوں کے علاوہ بہت سے موذی امراض لاتعداد انسانوں کی زندگیوں کے لیے خطرے کا باعث ہیںتصویر: AP

بھارت:

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ملک بھارت میں اب تک عوام کے لیے کسی ہمہ گیر ہیلتھ پلان کا نام ونشان نہیں پایا جاتا۔ عوام اپنے علاج معالجے پر آنے والے اخراجات کا تین چوتھائی حصہ اپنی جیب سے اداکرتے ہیں۔ یہ اخراجات بھارت کے 39 ملین انسانوں کو ہر سال غربت کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ بھارت میں صحت کے نظام پر آنے والے کل اخراجات کا 80 فیصد پرائیوٹ سیکٹر سے پورا ہوتا ہے اور حکومت محض 20 فیصد کے ذریعے غریب ترین باشندوں کو علاج کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ نئی دہلی حکومت نے 2005 ء میں نیشنل رورل ہیلتھ مشن شروع کیا تھا جس کا مقصد ہر گاؤں میں صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنا تھا۔ اس کے لیے حکومت پرائیوٹ سیکٹر کو گاؤں اور دیہات کی سطح پر سرمایہ کاری کی ترغیب دلا رہی ہے۔ بھارت کی ریلوے کی وزارت نے آٹھ ہزار ریلوے اسٹیشنوں کے نزدیک میڈیکل کالجز اور ہسپتالوں کے قیام کے لیے ہیلتھ منسٹری کو زمینیں دینے کا وعدہ کیا ہے۔ وزارت صحت کلینکس اور ہسپتالوں کی تعمیر کا ٹھیکا پرائیوٹ سیکٹر کو دے گی۔

Indonesien Erdbeben auf der Hauptinsel Java
جاوا ہسپتال کا ایک منظرتصویر: AP

انڈونیشیا:

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دس ممالک کی فہرست میں انڈونیشیا کا شمار چوتھے نمبر پر ہے۔2007 ء میں انڈونیشیا میں ہر شہری کی صحت پر 42 ڈالر جبکہ فلپائن میں 63 اور سنگاپور میں 1,148ڈالر فی کس رقم خرچ کی گئی۔ ان ممالک میں غیر متعدی امراض سب سے زیادہ اموات کا باعث بن رہے ہیں۔ جکارتہ حکومت 1.15 بلین ڈالر کی مدد سے ملک کے صحت کے نظام کو بہتر بنانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ 238 ملین کی آبادی والے ملک انڈونیشنا کے 56 فیصد عوام کے پاس کسی نا کسی شکل میں صحت کا بیما یا ہیلتھ انشورنس موجود ہے۔ جبکہ باقی ماندہ 44 فیصد اپنے علاج کے تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں۔ گزشتہ سال سے جکارتہ حکومت نے صحت کے شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے دروازے کھول دیے ہیں۔ ساتھ ہی نجی ہسپتال بنانے والی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے کہ 25 سے 50 فیصد تک بستر اور دیگر سہولیات تیسرے درجے کے وارڈز کے کے لیے مخصوص کر دیے جائیں۔ ان پر آنے والے اخراجات حکومت خود ادا کرے گی۔

انڈونیشیا میں کہنہ بیماریوں کے شکار افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جکارتہ حکومت ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس اور کولسٹرول کے شکار بالغ افراد کے لیے ہیلتھ سروسز میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کر رہی ہے۔ نیز فاسٹ فوڈ میں نمک کی مقدار میں کمی کے امکانات پر ریسرچ بھی کروائی جا رہی ہے کیونکہ کھانے میں نمک کی زیادتی Non communicable diseases زیادہ غیر متعدی بیماریوں کی کلیدی وجہ بتائی جاتی ہے۔

تائیوان میں 1995 ء میں نیشنل ہیلتھ انشورنس کا ایک وسیع پروگرام متعارف کروانے کے بعد سے وہاں کے عوام کی متوقع عمر میں اضافہ اور کینسر جیسے موذی مرض کے شکار مریضوں کی زندگی بچانے میں کافی مدد ملی ہے۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں