ایردوآن کی ترکی میں صدارتی نظام متعارف کرانے کی نئی کوشش
4 نومبر 2015انقرہ سے بدھ چار نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق صدر ایردوآن کے ترجمان ابراہیم کالین نے آج بتایا کہ ترک سربراہ مملکت کو یقین ہے کہ ملک میں صدارتی نظام حکومت رائج کرنا مستقبل کی طرف سے ایک بہت بڑی جست ہو گی اور ممکنہ طور پر اس بارے میں ترکی میں آئندہ ایک ریفرنڈم بھی کرایا جا سکتا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ اگر اس مقصد کے حصول کے لیے عوام سے فیصلہ کرانا ہی طریقہ کار ٹھہرا، تو ایسا کیا بھی جا سکتا ہے۔
ترکی میں موجودہ حکمران جماعت، پارٹی برائے انصاف اور ترقی یا AKP کی بنیاد رجب طیب ایردوآن نے ہی رکھی تھی اور اس پارٹی کو اتوار یکم نومبر کے روز ہونے والے قبل از وقت عام انتخابات میں، جو اس سال ترکی میں ہونے والے دوسرے پارلیمانی الیکشن تھے، زبردست کامیابی ملی تھی۔
اے کے پی کو انقرہ کی نئی پارلیمان میں قطعی اکثریت تو حاصل ہو گئی ہے لیکن اس کے پاس ملک میں کسی بھی ریفرنڈم کے انعقاد کے لیے یا کسی بھی آئینی ترمیم کی خاطر ابھی بھی 13 ارکان کی کمی ہے۔ ایسے کسی بھی فیصلے کے لیے اس پارٹی کو 550 رکنی ایوان میں 330 ارکان کی حمایت درکار ہوگی اور اس کے منتخب اراکین پارلیمان کی تعداد 317 ہے۔
یکم نومبر کو ہونے والے عام الیکشن کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ صدر ایردوآن کی جماعت، جو گزشتہ 13 برسوں سے الیکشن میں پارلیمانی اکثریت حاصل کرتی چلی آئی تھی، اس سال جون میں ہونے والے انتخابات میں اس اکثریت سے محروم ہو گئی تھی۔ پھر نئی حکومت سازی کی کوششوں میں ناکامی کے بعد ملک میں نئے الیکشن کے انعقاد کا اعلان کیا گیا اور پھر یکم نومبر کو اسلام کی طرف جھکاؤ رکھنے والی یہی پارٹی دوبارہ اپنے لیے پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق جیسا کہ صدر ایردوآن کے ترجمان نے آج کہا ہے، اگر ترکی میں آئندہ صدارتی نظام حکومت رائج کر دیا گیا، تو رجب طیب ایردوآن کے اختیارات میں واضح اضافہ ہو جائے گا۔
ترکی میں اپنی پارٹی کی انتخابی کامیابی کے نتیجے میں ایردوآن پہلی مرتبہ 2003 میں وزیر اعظم بنے تھے اور تب سے اب تک وہ ترک عوام کی تائید و حمایت سے ملکی سیاست پر پوری طرح چھائے ہوئے ہیں۔ ایردوآن کے یہ سیاسی ارادے بھی کوئی راز کی بات نہیں ہیں کہ وہ ملک میں آئندہ امریکا کی طرز پر صدارتی نظام حکومت متعارف کرانا چاہتے ہیں۔