’ایران یمنی تنازعے سے دور رہے‘، حوثی انقلابی کمیٹی
9 مارچ 2016نیوز ایجنسی روئٹرز نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ حوثی عام طور پر سعودی سرکردگی میں ایک سال سے لڑی جانے والی جنگ میں شیعہ ایران کو ایک دوست طاقت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ سعودی قیادت میں لڑنے والی اتحادی قوتیں منصور ہادی کو صدر کے عہدے پر بحال کرنا چاہتی ہیں۔
حوثی انقلابی کمیٹی کے ایک رکن یوسف الفیشی نے فیس بُک پر پوسٹ کیے گئے اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ ’اسلامی جمہوریہٴ ایران میں حکام کو خاموش رہنا چاہیے اور یمنی تنازعے کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے‘۔
حوثی گروپ کے کسی ایسے سینیئر رکن کی جانب سے ایرانی حکام کے نام کھلے عام دیا جانے والا یہ پہلا بیان تھا، جسے حوثی رہنما عبدالمالک الحوثی کے بہت ہی قریب خیال کیا جاتا ہے۔
منگل کے روز ایرانی بریگیڈیئر جنرل مسعود جزائری نے، جو ایران کی مسلح افواج کے ڈپٹی چیف آف سٹاف بھی ہیں، تسنیم نیوز ایجنسی کے ساتھ ایک انٹرویو میں یہ تجویز کیا تھا کہ ایران ممکنہ طور پر اُسی انداز میں حوثیوں کی بھی مدد کر سکتا ہے، جس انداز میں اُس نے شام میں صدر بشار الاسد کی افواج کی مدد کی ہے۔
الفیشی کی جانب سے فیس بُک پر مذکورہ پیغام ایک ایسے وقت پر پوسٹ کیا گیا ہے، جب حوثیوں کا ایک وفد سعودی عرب کے دورے پر ہے۔ اس دورے سے یہ امید ہو چلی ہے کہ ایک سال سے جاری وہ تنازعہ اختتام کو پہنچ سکتا ہے، جس میں اب تک تقریباً چھ ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
بدھ کے روز سعودی عرب کی جانب سے بتایا گیا کہ حوثی دشمنوں کے ساتھ قیدیوں کا تبادلہ عمل میں آیا ہے اور ایک سعودی فوجی افسر کے بدلے سات یمنی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اس امر کی تصدیق بھی کی گئی تھی کہ سرحد پر حالات بدستور پُر سکون ہیں۔
دریں اثناء العربیہ ٹیلی وژن چینل کے مطابق چھ رکنی خلیجی تعاون کونسل نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس کونسل کے رکن خلیجی عرب ممالک ’خطّے میں ایرانی اثر و رسوخ‘ کو رَد کرتے ہیں۔ یہ کونسل سعودی عرب، کویت، بحرین، متحدہ عرب امارات، قطر اور عمان پر مشتمل ہے۔ اس کونسل میں شامل ممالک کے وزرائے خارجہ کا ایک اجلاس سعودی دارالحکومت ریاض میں منعقد ہوا، جس میں شام میں سیاسی حل کی بھی پُر زور حمایت کی گئی۔ ساتھ ساتھ شام میں فائر بندی کے اطلاق کا کوئی باقاعدہ طریقہٴ کار لاگو کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔