ایران کے حکومتی عہدے داروں پر امریکی پابندیاں
30 ستمبر 2010امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے واشنگٹن میں ایک نیوزکانفرنس کے موقع پر کہا، ’یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بنیاد پر ایران پر پابندیاں لگائی ہیں۔‘
اس نیوزکانفرنس کے موقع پر سیکریٹری خزانہ ٹموتھی گائتھنر بھی ہلیری کلنٹن کے ساتھ تھے۔ امریکی محکمہ خزانہ نے ایک علٰحیدہ بیان میں کہا ہے کہ پابندیوں کا سامنا کرنے والے ایرانی عہدے داروں پر 2009ء کے متنازعہ صدارتی انتخابات کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کے دوران انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
اوباما کے احکامات سے ایرانی وزیر داخلہ مصطفیٰ محمد نجار، انقلابی گارڈز کے کمانڈر محمد علی جعفری، استغاثہ غلام حسین محسنی اژہا اور وزیر برائے انٹیلی جنس حیدر مصلحی کی امریکہ میں موجود کسی بھی طرح کی جائیدادیں منجمد ہو جائیں گی۔ ان پابندیوں کا سامنا کرنے والے دیگر عہدے داروں میں وزیر بہبود و سوشل سکیورٹی صادق محصولی، نیشنل پولیس کے نائب سربراہ احمد رضا رادان، نائب انقلابی گارڈ کمانڈر برائے انٹیلی جنس حسین طائب اور سابق استغاثہ جنرل سعید مرتضوی شامل ہیں۔ ان ایرانی عہدے داروں پر امریکہ میں داخل ہونے بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
ہلیری کلنٹن نے کہا کہ انہی عہدے داروں کی نگرانی یا احکام پر ایرانی عوام پر تشدد کیا گیا، خواتین کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں، شہریوں کو بلیک میل اور قتل کیا گیا۔
وائٹ ہاؤس کے ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے، ’امریکہ ایران میں ان تمام افراد کے ساتھ ہے، جو اپنی آواز بلند کرنا چاہتے ہیں۔‘
گزشتہ برس جون میں ہوئے صدارتی انتخابات کے نتائج کو ایران کی اپوزیشن جماعتوں نے مسترد کر دیا تھا، جس کے بعد پابندی کے باوجود ہزاروں افراد تہران کی سڑکوں پر مارچ کرتے رہے۔ اس دوران پرتشدد مظاہرے ہوئے اورمتعدد افراد ہلاک ہوئے۔ احتجاج کے اس سلسلے کو وہاں اسلامی انقلاب کے بعد ہونے والے بدترین مظاہرے قرار دیا گیا۔
انسانی حقوق کے گروپوں نے تہران حکام کوماورائے عدالت قتل، جنسی زیادتیوں اور تشدد کے ذریعے احتجاج کو دبانے کا مرتکب قرار دیا تھا۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عاطف بلوچ