1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران کے جوہری تنازعے میں شدت

8 فروری 2010

ایران نےعالمی ادارہ برائے جوہری توانائی کو آگاہ کردیا ہے کہ تہران اعلٰی یورینیم کی بیس فیصد تک افزدوگی منگل سے ایران کے وسطی شہر میں قائم جوہری پلانٹ ناتان پرشروع ہوگا۔

https://p.dw.com/p/LvrU
تصویر: ISNA

مغربی دنیا اورایران کے درمیان جوہری توانائی کا تنازعہ ایک بار پھر شدت اختیار کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اتوار کو ایران کی جوہری توانائی کی تنظیم کے سربراہ علی اکبر صالحی نے مغربی دنیا کو یہ کہہ کر مزید پریشانی میں مبتلا کر دیا کہ تہران اعلی یورینیم کی بیس فیصد تک افزدوگی کرے گا اور پیر کو آئی اے ای اے کواس فیصلے کے حوالے سے باضابطہ طور پر مطلع کردیا گیا ہے۔

اعلی یورینیم کی افزدوگی 3.5 فیصد سے بڑھا کر20 فیصد تک کرنے کے ایرانی فیصلے نے سیاسی اور سفارتی حلقوں میں ہلچل مچادی ہے۔ آسٹریلیا اور امریکہ سمیت کئی ممالک نے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ایران کا موقف ہے کہ تہران ریسرچ ری ایکڑ کے لئے 120 کلو گرام اعلی افزدو یورینیم کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ادارہ کینسر کے مریضوں کے لئے میڈیکل آئیسو ٹوپس بناتا ہے۔ لیکن مغربی دنیا ایران کی اس منطق کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔کچھ مغربی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ اضافہ جوہری بم بنانے کی ایرانی خواہش کا عکاس ہے۔ ان کی حجت یہ ہے کہ میڈیکل آئسوٹوپس کے لئے ایندھن بنانے کی جدید ٹیکنالوجی فرانس اور ارجنٹائن کے پاس ہے اور یہ کہ ایران اس ٹیکنالوجی سے محروم ہے۔

اقوام متحدہ نے کچھ عرصہ قبل یہ تجویز کیا تھا کہ تہران کے 3.5 فیصد کم افزدو یورینیم کو کسی دوسرے ملک میں بیس فیصد تک افزودہ کردیا جائے تاکہ تہران ریسرچ ری ایکڑ کی ضروریات پوری ہوسکیں۔ اس تجویزسمیت کئی اورتجاویز پرایران اورعالمی طاقتوں کے درمیان کافی عرصے سے بات چیت بھی چل رہی ہے لیکن ان پر ابھی تک فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔

Iran Präsident Mahmud Ahmadinedschad mit Schutzbrille
تصویر: AP

علی اکبر صالحی نے اپنے بیان میں یہ واضح کیا تھا کہ اگرتہران ریسرچ ری ایکٹر کی ضروریات کے لئے 20 فیصد تک افزدو یورینیم درآمد کرنے دیا جاتا ہے تو اسلامی حکومت اعلی یورینیم کی افزدوگی نہیں گرے گی۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ شرط اس بات کی مظہر ہے کہ ایران اس اعلان سے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے اور ایندھن کی فراہمی پر ہونے والی بات چیت میں اپنی شرائط منوانا اس وقت تہران کا مطمع نظر ہے۔

دوسری طرف مغربی دنیا بھی سفارتی سطح پر ایران کو اس افزدوگی میں اضافے سے روکنے کے لئے کوشاں نظرآتی ہے۔ امریکی وزیرِ دفاع رابرٹ گٹیس اور فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی کے درمیان ہونے والی پیرکی ملاقات میں ایران کا جوہری پروگرام ترجیحِ اول نظرآتا ہے۔ اس مہینے سلامتی کونسل کی صدرات فرانس کے پاس ہوگی اور واشنگٹن کو امید ہے کہ فرانس اس صدارت کے دوران ایران کے خلاف سخت اقدامات پر مبنی ایک قرارداد کو متعاراف کرائے گا۔

لیکن امریکہ اور تائیوان کے درمیان اسلحہ کےمعاہدوں سے نالاں چین ماہرین کی نظر میں کسی بھی ایسی سخت قرارداد کی مخالفت کرے گا۔ چین کا خیال ہے کہ عالمی برداری کو ایران کے جوہری مسئلے پر صبروتحمل سے کام لینا چاہیے۔

رپورٹ: عبدالستار

ادارت: افسر اعوان