1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران کے ایٹمی پروگرام پر تنازعہ جاری

4 ستمبر 2006

ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان کے ساتھ بات چیت کے بعد کل تہران میں ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔ چنانچہ کوفی عنان کو اکیلے ہی ایٹمی تنازعے کے حوالے سے یہ بتانا پڑا کہ ایران اپنے اب تک کے موقف میں ایک چھوٹی لیکن انتہائی قابل قدر تبدیلی پر آمادہ ہے۔ استنبول سے Ulrich Pick کی رپورٹ

https://p.dw.com/p/DYJw
تہران میں ایرانی صدر محمود احمدی نژاد اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان کی بات چیت
تہران میں ایرانی صدر محمود احمدی نژاد اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان کی بات چیتتصویر: AP


اگر کوفی عنان کے مزاج کے خلاف بھی کوئی بات ہو جائے، تو وہ اپنے چہرے کے تاثرات سے اُسے محسوس نہیں ہونے دیتے۔ چنانچہ یہ بات حیران کن نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے ایران کے دورے کے اختتام پر تقریباً وہی کچھ کہا، جو وہ اب تک کہتے رہے ہیں یعنی ” ہمیں بہت صبر سے کام لینا ہو گا“۔

دوسری جانب ایران کے بارے میں امریکہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ یورپ کا بھی کچھ یہی حال ہوتا جا رہا ہے کیونکہ کوفی عنان کا تہران کا دَورہ پہلی نظر میں کوئی زیادہ تبدیلی نہیں لا سکا ہے۔ اسلامی جمہوریہء ایران کے موقف میں اُنہی دو باتوں کا اعادہ تھا، جو اب تک وہاں کے صدر احمدی نژاد کہتے چلے آ رہے ہیں۔ پہلی یہ کہ ایران مزید مذاکرات کے لئے تیار ہے۔ اور دوسری صدر احمدی نژاد کے اپنے الفاظ میں یہ کہ : ”ایرانی قوم کو جوہری توانائی کے پر امن استعمال کا پورا حق حاصل ہے۔ قوم نے اپنے جائز بین الاقوامی حق کا استعمال کرتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کیا ہے۔“

ایران نے اگرچہ عالمی برادری کے مطالبات کے جواب میں متعدد بار یہی دو باتیں کہی ہیں، تاہم یوں نظر آتا ہے جیسے کوفی عنان کے دورے کے دوران ایران نے اپنے موقف میں تھوڑی سی تبدیلی پیدا کر لی ہو۔ ایرانی صدر نے بات چیت کے دوران ان سے جو کچھ کہا، اس بارے میں ذکر کرتے ہوئے کوفی عنان نے بتایا کہ ایٹمی سوال کے جواب میں ایرانی صدر نے بار بار اِس بحران کے حل کے لئے مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا۔ تاہم ساتھ ہی ایرانی صدر نے متعدد بار زور دے کر یہ بھی کہا کہ وہ یورینیم کی افزودگی روکنے کے بارے میں مزید مذاکرات کے لئے تیار نہیں۔

دوسرے لفظوں میں اس سے مراد یہ ہے کہ اگر بات چیت کا سلسلہ پھر سے شروع ہوتا ہے تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام کو روک دے، خواہ ایسا تھوڑی دیر کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔ اگرچہ یہ کوئی بہت بڑی مذاکراتی کامیابی نہیں ہے، البتہ اسے ”ایک چھوٹی تبدیلی“ کا نام دیا جا سکتا ہے۔کیونکہ محمود احمدی نژاد اب تک اپنے ایٹمی پروگرام کو کچھ عرصے کے لیے بھی روکنے سے سختی سے انکار کرتے چلے آ رہے ہیں۔ محتاط لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایران اپنے پروگرام سے اصولی طور پر دستبردار نہیں ہوا، البتہ اُس نے اپنے موقف میں کچھ لچک پیدا کرنے کی جانب حرکت ضرور کی ہے۔

خود یورپ نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے اپنے سرکردہ سفارت کار خاویئر سولانا کو ہفتے کے روز یہ فریضہ سونپا ہے کہ وہ تہران کے ساتھ مزید بات چیت کریں تا کہ مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا کوئی حل تلاش کیا جا سکے۔