ایران ڈرون واپس کر دے، صدر اوباما کی اپیل
13 دسمبر 2011امریکہ کے دورے پر آئے ہوئے عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کے ساتھ پیر کو وائٹ ہاؤس میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما نے کہا: ’ہم نے ڈرون طیارے کی واپسی کے لیے کہا ہے۔ دیکھیے کہ ایرانی حکومت اس پر کیا ردعمل ظاہر کرتی ہے۔‘
امریکی صدر باراک اوباما کی انتظامیہ نے پہلی مرتبہ کھلے عام تصدیق کی ہے کہ اس کا ایک جاسوس طیارہ ایران کے قبضے میں ہے۔ ایرانی حکام کا دعویٰ ہے کہ ایرانی فوج کے الیکٹرانک وارفیئر یونٹ نے اس ڈرون طیارے کےالیکٹرانک نظام پر کنٹرول حاصل کرکے اسے زمین پر اتار لیا تھا جبکہ امریکی حکام کے بقول یہ طیارہ فنی خرابی کے باعث ایرانی سرحدی حدود میں گرا۔
امریکی صدر باراک اوباما نے اس ڈرون طیارے کی ایرانی سرحدوں میں داخل ہونے یا اس کے مشن کے بارے میں تفصیلات نہیں بتائیں۔ انہوں نے کہا: ’میں انٹیلی جنس معاملات پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا کیونکہ یہ ایک خفیہ معاملہ ہے۔‘
امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے بھی کہا ہے کہ واشنگٹن حکومت نے سینٹینل اسٹیلتھ ٹیکنالوجی سے آراستہ RQ-170 ساخت کے اس ڈرون طیارے کی واپسی کے لیے سرکاری طور پر درخواست کی ہے۔ تاہم انہوں نے ایسے شکوک کا اظہار کیا کہ امریکہ کا روایتی حریف ایران اس ڈرون کو واپس نہیں لوٹائے گا۔ انہوں نے کہا: ’ ایرانی حکام جس رویے کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں اسے دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ وہ ہماری اس درخواست کو پورا نہیں کریں گے۔‘
قبل ازیں ایک امریکی اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ ریڈار کے زد میں نہ آنے والا چمگادڑ نما یہ امریکی ڈرون افغانستان میں سی آئی اے کے ایک مشن پر تھا کہ لاپتہ ہو گیا۔ امریکی وزیر دفاع لیون پینیٹا نے کہا ہے کہ ایرانی حکام اس ڈرون طیارے سے کیا معلومات نکال سکتے ہیں، یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ طیارہ کس حالت میں ہے۔
پیر کو ایرانی سرکاری خبر رساں ادارے نے حکام کے حوالے سے بتایا تھا کہ ماہرین اس ڈرون طیارے میں فیڈ ڈیٹا ڈی کوڈ کرنے کے قریب تر پہنچ چکے ہیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: ندیم گِل