ایران میں طاقت کی رسہ کشی: صدارتی نظام کو خطرہ؟
19 اکتوبر 2011مغربی شہر کرمانشاہ میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’صدر کا انتخاب عوام کے براہ راست ووٹوں سے ہوتا ہے، جو ایک اچھا اور مؤثر طریقہ ہے، لیکن اگر مستقبل میں یہ محسوس کیا گیا کہ پارلیمانی نظام حکومت ملک کے لیے بہتر ہے تو موجودہ ڈھانچے کو تبدیل کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔‘‘
اگرچہ مستقبل قریب میں اس تبدیلی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا مگر خامنہ ائی کی جانب سے صرف اس بات کا اشارہ کرنے سے ہی یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ ان کے اور صدر محمود احمدی نژاد کے درمیان اقتدار کی کھینچا تانی کیا رخ اختیار کر چکی ہے۔
امریکہ کی Syracuse University میں ایرانی امور پر تحقیق کرنے والے مہر زاد بروجردی کا کہنا ہے، ’’اس سے دونوں شخصیات کے درمیان اختلافات کی شدت ظاہر ہوتی ہے۔ خامنہ ائی یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ موجودہ نظام سے کس حد تک اختلاف کی گنجائش موجود ہے اور خود ان کے ہاتھ میں کتنے مضبوط پتے ہیں۔‘‘
اس سے آئندہ برس مارچ میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں سخت گیر مؤقف کے حامل ملاؤں کی حکمت عملی کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔
سخت گیر مؤقف رکھنے والے ملاؤں کے ساتھ ساتھ انتہائی بااثر پاسداران انقلاب پر مشتمل ایران کی برسر اقتدار ہئیت حاکمہ میں اس اندرونی مناقشت پر قابو پانے کی کوششیں بڑھ رہی ہیں۔ ان اختلافات کو ایسے وقت میں غیر سازگار تصور کیا جا رہا ہے جب ملک کو بین الاقوامی سطح پر متعدد مسائل کا سامنا ہے جن میں مغرب کے ساتھ جوہری مذاکرات کا دوبارہ آغاز، ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید اور امریکا کی جانب سے ایران پر یہ الزام شامل ہیں کہ پاسداران انقلاب کا ایک خصوصی دستہ امریکی سرزمین پر سعودی سفارت کار کے قتل کی سازش میں ملوث تھا۔
ایرانی صدر نے رواں برس کے اوائل میں خامنہ ائی کی جانب سے انٹیلیجنس کے وزیر کے انتخاب پر بطور احتجاج دس روز تک کابینہ کے اجلاسوں کا بائیکاٹ کیا تھا۔ حالیہ دنوں میں صدر کے درجنوں حامیوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ تاہم ابھی تک ان کے چیف آف اسٹاف اور سسرالی رشتہ دار اسفندیار رحیم مشائی محفوظ ہیں حالانکہ وہ بھی ملاؤں کے زیر اثر نظام پر اعتراض کر چکے ہیں۔
ایران کے برسر اقتدار ملاؤں اور صدور کے درمیان ایک دہائی سے کشمکش جاری ہے اور پہلے اصلاح پسند صدر خاتمی اور اب احمدی نژاد ان کا نشانہ ہیں۔ ایران کے ’اسلامی جمہوری‘ نظام کے تحت صدر اور پارلیمان منتخب ہوتے ہیں مگر غیر منتخب ملاؤں کی کونسل اس کی نگرانی کرتی ہے۔ کونسل کو قانون سازی اور منتخب عہدوں کے امیدواروں کی توثیق کرنے کا اختیار حاصل ہے اور ملک کی طاقتور عدلیہ بھی اس کے ماتحت ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی/خبر رساں ادارے
ادارت: شامل شمس