ایران میں حکومت نواز مظاہرہ: موسوی،کروبی کی مذمت
18 فروری 2011سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق اس اپوزیشن مخالف مظاہرے کے دوران عوام کی طرف سے گرین موومنٹ نامی اپوزیشن تحریک کے رہنماؤں میر حسین موسوی اور مہدی کروبی کی مذمت کی جانا تھی اور ایسا ہوا بھی۔ یہ دونوں رہنما کئی دنوں سے اپنے اپنے گھروں پر نظر بند ہیں۔
تہران میں آج جمعہ کی نماز کے بعد حکومت کے حامی ہزار ہا افراد نے سڑکوں پر مظاہرے کیے اور مطالبہ کیا کہ میر حسین موسوی اور مہدی کروبی نے جو مبینہ ’بغاوت‘ کی ہے، اس کی بنیاد پر ان رہنماؤں کو سزائے موت ملنی چاہیے۔
یہ مظاہرہ تہران یونیورسٹی میں نماز جمعہ کے بعد شروع ہوا، جس دوران لاتعداد مظاہرین مارچ کرتے ہوئے انقلاب چوک تک گئے۔ انہوں نے صدر احمدی نژاد اور سپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی کی تصویریں بھی اٹھا رکھی تھیں۔
ایران میں پیر کے روز کئی شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں عام شہریوں کے مظاہروں سے تہران حکومت بظاہر غیر متوقع حد تک خوف کا شکار ہو گئی تھی۔ آج کے حکومت نواز مظاہرے کی اپیل کا اس کے علاوہ کوئی اور قابل یقین جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔
منگل پندرہ فروری کو ایرانی پارلیمان کے 290 میں سے220 ارکان نے ایک ایسی دستاویز پر دستخط بھی کیے تھے، جس کے مطابق ملک میں بدامنی کے ذمہ دار موسوی اور کروبی ہیں۔ اس دستاویز میں کہا گیا تھا کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور وہ دونوں اپوزیشن رہنماؤں کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پارلیمانی ارکان کے اس موقف کے بارے میں یہ بات غیر یقینی ہے کہ آیا ان کی سوچ واقعی عوام کی اکثریتی رائے کی عکاسی کرتی ہے۔ لیکن جمعرات کے روز ایرانی عدلیہ کے اعلیٰ ترین عہدیدار آیت اللہ صادق لاریجانی نے کہا تھا کہ اس وقت ضرورت اُس صبر اور دانشمندی کی ہے، جو اس طرح کے حالات میں منصفانہ چھان بین کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔
اس بارے میں ایرانی ٹیلی وژن کی نشریات میں کہا گیا: ’’عدلیہ کے سربراہ نے سازشی عناصر کے خلاف عدالتی کارروائی پر زور دیا اور کہا کہ ان افراد کی باغیانہ سوچ سے ہر کوئی واقف ہے۔ انہوں نے کہا کہ علیحدگی پسندوں کو واضح طور پر علم ہونا چاہیے کہ ملکی سیاسی نظام پر کوئی بھی حملہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘
ایران قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ گرین موومنٹ کے ان دونوں سرکردہ رہنماؤں کے خلاف مقدمے یا ان کو سنائی جا سکنے والی ممکنہ سزا ئے موت سے حکومت کو کسی فائدے کے بجائے نقصان ہی ہو گا۔ اس لیے کہ یوں وہ اپوزیشن کی نظر میں شہید بن جائیں گے، اور ایرانی داخلہ سیاست میں موجودہ دباؤ اور بھی بڑھ جائے گا۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: امتیاز احمد