1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی وزیر خارجہ کا دورہ بھارت

17 نومبر 2009

ایرانی وزیر خارجہ منوچہر متقی نے بھارت کا اپنا دو روزہ دورہ مکمل کرلیا ہے۔ دورے میں ایران پاکستان بھارت گیس پائپ لائن منصوبے پر پیش رفت نہیں ہو سکی۔

https://p.dw.com/p/KZLe
تصویر: AP

اس دورے میں منوچہر متقی نے بھارتی رہنماوں کے ساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے، وسطی ایشیا کے لئے ٹرانزٹ روٹ اور پاکستان افغانستان خطے میں جنگجووں کی سرگرمیوں کے متعلق اطلاعات میں ایک دوسرے کو شریک کرنے سمےت متعدد امور پر بات چیت کی لیکن سات ارب ڈالر سے زائد کے ایران پاکستان بھارت گیس پائپ لائن پروجیکٹ پر کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی۔

بھارت او رایران میں انتخابات اور سابقہ حکومتوں کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد یہ پہلی اعلیٰ سطحی بات چیت تھی۔ ایرانی وزیر خارجہ منوچہر متقی نے وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور اپنے بھارتی ہم منصب ایس ایم کرشنا کے ساتھ متعدد امور پرتبادلہ خیال کیا، جن میں وسطی ایشیائی ملکوں تک پہنچنے کے لئے بھارت ایران افغانستان ٹرانزٹ روٹ تعمیر کرنے کی تجویز شامل ہے لیکن سات اعشاریہ چار بلین ڈالر کے ایران پاکستان بھارت گیس پائپ لائن پروجیکٹ پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔

منوچہر متقی نے بعد میں نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا: ’’بات چیت کے دوران بھارتی رہنماؤں نے اس پروجیکٹ کے سلسلے میں کئی سوالات کئے، کچھ تشویش کااظہار کیا اور مزید رعایتوں کی بات کی۔ میں سمجھتا ہو ں کہ بھارت کو اس پروجیکٹ میں دلچسپی ہے۔ حالانکہ ہم نے پاکستان کے ساتھ اس پروجیکٹ کا نفاذشروع کردیا ہے لیکن بہرحال بھارت کو بھی اس میں شامل کرنے کی گنجائش موجود ہے۔‘‘

Karte mit Kaspischem Meer
منصونے کے مطابق گیس پائپ لائن ایران سے پاکستان کے راستے بھارت تک پہنچنی تھیتصویر: AP

خیال رہے کہ پاکستان کے راستے سے ہوکر کر گذرنے کی وجہ سے اس پائپ لائن کی سیکیورٹی اور دیگر اسباب کی بنا پر تقریبا دس سال سے یہ پروجیکٹ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے جبکہ بین الاقوامی نیوکلیائی توانائی ایجنسی میں ایران کے خلاف ووٹ ڈالنے کی وجہ سے تہران نے بھارت کے لئے اپنا موقف سخت کردیا ہے۔

منوچہر متقی نے مستقبل میں اس پروجیکٹ میں بھارت کی بجائے دیگر ملکوں کو شامل کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا:’’اگر مستقبل میں ہم دیگر ملکوں، خطوں یا پائپ لائنوں سے اس پروجیکٹ کے سلسلے میں کوئی معاہدہ کرتے ہیں تو اس پروجیکٹ میں چھوٹے یا درمیانے درجے کی تبدیلی ہوسکتی ہے۔‘‘

ایرانی وزیر خارجہ نے افغانستان کی موجودہ صورت حال کے لئے امریکہ کی سابقہ بش انتظامیہ کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ صدر باراک اوباما کی حالیہ پالیسیوں سے بھی وہاں بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ منوچہر متقی نے افغانستان کے مسئلے کو لبنان کی طرز پر حل کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا :’’ افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے نئے منصوبوں اور نئے آئیڈیاز پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح علاقائی افہام و تفہیم اور ربط کو بڑھاکر لبنان کے مسئلے کو حل کیا گیا اسی طرح افغانستان کا مسئلہ بھی حل ہوسکتا ہے۔‘‘

ایرانی وزیر خارجہ نے ایشیائی ملکوں کے درمیان ایک مشترکہ میکانزم قائم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ منوچہر متقی نے کہا :’’ایشیائی مشترکہ میکانزم کے فقدان کی وجہ سے ایشائی ملکوں کا مستقبل خطرے میں ہے۔ امریکہ، یورپ اور افریقی ملکوں نے کامیابی کے ساتھ اس طرح کا میکانزم قائم کیا اور اس کے فائدوں سے مستفید ہورہے ہیں لیکن ایشائی ممالک اس طرح کے میکانزم سے محروم ہیں۔‘‘

دریں اثناء ذرائع کے مطابق بھارت نے ایرانی سیٹیلائٹ کو خلاء میں بھیجنے کی تہران کی درخواست کو مسترد کردیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت نے امریکہ کی ناراضگی سے بچنے کے لئے یہ فیصلہ کیا ہے۔

رپورٹ : افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت : عاطف توقیر