ایرانی وزیر خارجہ استنبول میں
19 مارچ 2016ایرانی میڈیا کے مطابق جواد ظریف ترک حکام کے ساتھ دو طرفہ اقتصادی تعاون اور تجارت کو مضبوط تر بنانے کے علاوہ موجودہ علاقائی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کرنے کی غرض سے استنبول پہنچے ہیں۔
استنبول پہنچنے پر ظریف کی ملاقات ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ متوقع ہے اس کے علاوہ ایرانی وزیر خارجہ اپنے ترک ہم منصب مولوت چاؤس آؤلو اور ترک وزیر اعظم احمت داؤد آؤلو سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
دریں اثناء ترکی کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ کے ترکی کے اس دورے کا مقصد موجودہ علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال اور دو طرفہ تعلقات کے بارے میں مذاکرات کرنا ہے۔
جواد ظریف نے اپنے اس دورے کا اہم ترین ایجنڈا باہمی تجارتی تعلقات کا فروغ بتایا ہے۔ استنبول پہنچنے پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ظریف نے کہا، ’’ایران کی نیوکلیئر ڈیل طے پانے کے بعد ہم ترکی کے ساتھ اقتصادی تعاون کی سطح کو ممکنہ حد تک اوپر لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
ایرانی وزیر خارجہ ایک ایسے وقت پر استنبول پہنچے ہیں جب آج ہی یعنی سنیچر 19 مارچ کو سیاحت اور تجارت کے اعتبار سے ترکی کے اس سب سے اہم شہر میں ہونے والے بم دھماکے کے نتیجے میں کم از کم چار افراد ہلاک اور چھتیس دیگر زخمی ہوئے ہیں۔ ترک وزارت صحت کے مطابق زخمیوں میں سے سات کی حالت نازک ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے دہشت گردی کے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے گھناؤنا عمل قرار دیا ہے۔
اس سال تہران کی ایٹمی سرگرمیوں کو محدود کرنے کی شرط پر ایران پر لگی بین الاقوامی پابندیوں کے خاتمے کے بعد اور دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ پہلے سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد ایران اب عالمی تجارتی نظام میں ایک بار پھر ایک بڑی معیشت بن کر اُبھر رہا ہے۔
ایران میں گزشتہ ماہ ہونے والے انتخابات میں اصلاحات پسند سیاستدانوں کی واضح کامیابی بھی تہران حکومت کی بین الاقوامی اقتصادی پالیسیوں میں تبدیلی کا سبب بنی ہے۔ تجارت اور صنعتی امور پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ اقتصادی پابندیاں ختم ہونے سے ایران کی مغربی دنیا کے ساتھ تجارت اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو بہت فروغ حاصل ہو گا۔
ایران اور ترکی اس وقت عالمی سطح پر غیر معمولی تشویش کا باعث بنے ہوئے دو بحرانوں، ’شام اور یمن‘‘ کی جنگوں کے بارے میں دو یکسر مختلف حکمت عملی اور پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں تاہم انقرہ اور تہران کا ایک دوسرے پر اقتصادی انحصار اتنا اہم ہے کہ یہ ان دونوں ممالک کے تعلقات کو قائم رکھے ہوئے ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں تہران میں ایرانی صدر حسن روحانی اور ترک وزیر اعظم احمد داؤت آؤلو کی ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے اس امر پر اتفاق کیا تھا کہ دونوں فرقہ وارانہ کشیدگی اور شام میں فائر بندی کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ بھر پور تعاون کریں گے۔