ایرانی فوجی ڈپو میں دھماکہ، سترہ فوجی ہلاک
13 نومبر 2011ایران کی طاقتور ترین فوج پاسداران انقلاب کے ترجمان جنرل رمضان شریف نے ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حادثہ اس وقت پیش آیا، جب اسلحہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا عمل جاری تھا۔ ہفتہ کے دن جس ڈپو میں یہ واقعہ رونما ہوا ہے وہ دارالحکومت تہران کے شمال مغرب میں چالیس کلو میٹر دور واقع ہے۔
تہران کے میڈیا کے مطابق اس دھماکے کے بعد فوجی ڈپو کی عمارت کو آگ نے گھیر لیا اور کئی گھنٹوں تک آگ پر قابو پانے کی کوششیں کی گئیں۔ ذرائع کے مطابق دھماکہ اتنا شدید تھا کہ دور دور تک اس کی شدت محسوس کی گئی۔ بتایا گیا ہے کہ اس دھماکے کے نتیجے میں فوجی ڈپو کا ایک حصہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے۔
جنرل شریف نے اس دھماکے کو ایک حادثہ قرار دیتے ہوئے کہا، ’ہمارے ساتھی اس ڈپو میں موجود اسلحہ ایک دوسری جگہ منتقل کر رہے تھے کہ اچانک یہ حادثہ پیش آ گیا‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس دھماکے کے پیچھے کوئی تخریب کاری نہیں ہے۔
ایران کے سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق اس دھماکے کے نتیجے میں سولہ فوجی زخمی بھی ہوئے۔ جنرل شریف نے کہا ہے کہ کئی زخمیوں کی حالت نازک ہے۔ ابتدائی رپورٹوں کے مطابق پاسداران انقلاب کے ترجمان جنرل رمضان شرف نے ہلاکتوں کی تعداد ستائیس بتائی تھی۔
ایران کے اس اہم فوجی اڈے میں یہ حادثہ ایسے وقت میں ہوا ہے، جب تہران کے متنازعہ جوہری پروگرام پر مغربی ممالک سمیت اسرائیل کی طرف سے تشویش میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسرائیلی قیادت نے ایسے بیان بھی دیے ہیں کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کا وقت قریب آ چکا ہے۔
اس تناظر میں ایرانی ممبر پارلیمان پرویز سنوری نے بھی کہا ہے کہ فوجی اڈے میں ہوئے اس دھماکے میں کسی کا ہاتھ نہیں ہے بلکہ یہ ایک حادثہ ہے، جو اچانک رونما ہوا۔
اسرائیل اور مغربی ممالک کو خدشہ ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام سے ایٹمی ہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہے جبکہ تہران حکومت کا مؤقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: عابد حسین