1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی جوہری معاہدہ، حقیقت کا روپ دھارتے ہوئے

عاطف توقیر18 اکتوبر 2015

امریکا نے مشروط طور پر ایران پر عائد پابندی اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ اس فیصلے میں پابندیوں کے خاتمے کو ایرانی نیوکلیئر سرگرمیوں کو تاریخی جوہری معاہدے کے تحت محدود بنانے کی شرط عائد کی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Gq9Y
Barack Obama Washington USA Atom Iran
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Marovich

ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان رواں برس 14جولائی کو طے پانے والے جوہری معاہدے کے تحت ایران کو اپنی جوہری سرگرمیاں محدود بنانی ہیں، جب کہ اس کے عوض اس پر عائد بین الاقوامی پابندیاں رفتہ رفتہ اٹھا لی جانا ہیں۔

اسی تناظر میں امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے محکمہء خارجہ، خزانہ، اقتصادیات اور توانائی کو ایک ہدایات نامہ جاری کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے، ’میں آپ کو ہدایت کرتا ہوں کہ ایرانی جوہری معاہدے میں طے کردہ امریکی وعدوں پر عمل درآمدکے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں۔‘ یہ ہدایات نامے کی نقل وائٹ ہاؤس کے پریس کے شعبے نے ذرائع ابلاغ کو بھی مہیا کی ہے۔

Österreich IAEA Flagge
ایران جوہری معاہدے پر عمل درآمد کی تصدیق بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کرے گیتصویر: picture-alliance/dpa/R. Schlager

اعلیٰ امریکی عہدیداروں نے تاہم نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں اداروں کو بتایا کہ صدر اوباما کے اس حکم نامے کے بعد بھی ایران کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کے باوجود تہران حکومت پر عائد پابندیاں اٹھانے کے عمل میں کم از کم دو ماہ لگ سکتے ہیں۔

یہ بات اہم ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی اس معاہدے کو منظور کر چکی ہے۔ سلامتی کونسل کے تمام پانچ مستقل رکن ممالک امریکا، روس، برطانیہ، فرانس اور چین کے علاوہ جرمنی بھی اس معاہدے تک پہنچنے کے لیے ایران کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں پی فائیو پلس ون کا حصہ رہا ہے۔

امریکی وزیرخارجہ جان کیری کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’ایران اب اس معاہدے کے تحت وہ تمام اقدامات اٹھانا شروع کر رہا ہے، جن سے یہ طے ہو جائے کہ ایرانی جوہری پروگرام صرف اور صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے۔‘

جان کیری کا کہنا ہے، ’پابندیاں اس وقت تک نہیں اٹھائی جائیں گی، جب تک ایران اس معاہدے کا اطلاق نہیں کر دیتا۔ ایران کو وہ تمام جوہری اقدامات مکمل کرنا ہیں، جو اس معاہدے میں طے ہوئے اور ان کی تصدیق بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے کرنا ہے۔‘