'اگر میں خدا ہوتا‘، جرمن کامیڈی گلوکار کا تازہ گیت
16 اگست 2016بوڈو وارٹکے اسٹیج پر سیاسی اور سماجی موضوعات کو ہلکے پھلکے رنگ میں طنز و مزاح کے ساتھ پیش کرنے والے ایک مشہور آرٹسٹ ہیں۔ اُن کے حال ہی میں ریلیز ہوئے گانے کا آغاز ایک بہت ہی مضبوط پیغام سے ہوتا ہے۔ وارٹکے اپنے اس گیت میں دنیا بھر کے خود ساختہ حکمرانوں، مذہبی جنونیوں اور ’مقدس جنگ‘ کے نام پر خون بہانے والوں سے یوں مخاطب ہوتے ہیں:’’اگر میں خدا ہوتا، چاہے کسی مذہب کا ہوتا، تو میں انسانوں سے کچھ کہنا چاہتا۔‘‘ یہ بے باک میوزک کامیڈین ان تمام انسانوں سے مخاطب ہے، جو زمین پر مذہب کے نام پر نفرت، دکھ اور موت پھیلا رہے ہیں۔ وارٹکے اس گانے کے ذریعے دنیا میں جا بجا جاری جنگوں کی مذمت کرتا ہے۔ وہ لوگوں کے بے گھر ہونے کا دکھ بھی بیان کرتا ہے اور عراقی شہر حلب کے باشندوں کی جنگ زدہ زندگی کو بھی گنگناتا ہے۔
اپنے اس گیت میں وارٹکے نے کچھ بھی تو نہیں چھوڑا۔ نام نہاد ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے حملوں سے لے کر یہودی نو آبادیوں تک اور ہم جنس پرستوں کی اپنے حقوق کی مانگ سے لے کر سالِ نو کے موقع پر جرمنی کے شہر کولون میں جنسی ہراس کے حملوں تک ہر انسانی مسئلے پر سوال اٹھائے ہیں۔ اس نے تمام مذاہب میں خدا کے نام سے ہر کام کا آغاز کیے جانے کی روایت کو بنیاد بناتے ہوئے اپنے جرمن زبان کے اس گیت کا اختتام کچھ اس طرح کیا ہے:’’اگر تم میری تخلیق کردہ دنیا کو تباہ کرتے ہو، تو میرا نام لے کر رحم کی دعا نہ مانگو کیونکہ تم میرے نام کوبد نام کر رہے ہو۔‘‘