اٹلی میں زلزلے کے بعد طاقتور آفٹر شاکس، امدادی سرگرمیاں متاثر
9 اپریل 2009حالیہ زلزلے میں مرنے والوں کی تعداد 272 ہو چکی ہے۔ امریکی جیولوجیکل سرے کی رپورٹ کے مطابق بدھ کو بھی طاقتور آفٹر شاکس کا سلسلہ جاری رہا۔ ایک روز قبل ریکارڈ کئے گئے شاکس میں ایک کی شدت ریکٹر اسکیل پر پانچ اعشاریہ چھ بھی ریکارڈ کی گئی۔ ان جھٹکوں سے ایک مرتبہ پھر متاثر پہاڑی شہر L'Aquila اور آس پاس کے کئی دیہات لرز اٹھے۔ ان جھٹکوں سے عمارتوں کو نقصان پہنچا مگر حالیہ جھٹکوں سے ہونے والی کسی ہلاکت کی کوئی فوری اطلاع نہیں ہے۔ L'Aquila میں آنے والے آفٹر شاکس اتنے طاقتور تھے کی ان کو سو کلومیٹر دور دارالحکومت روم میں بھی محسوس کیا گیا۔
آفٹر شاکس کی وجہ سے متاثرہ علاقے کے مکین بری طرح خوف میں مبتلا ہیں۔ زلزلے سے متاثرہ تقریبا سترہ ہزار افراد اس وقت خیمہ بستیوں میں آباد ہیں۔ خیمہ بستیوں میں رہنے والوں نے ایک اور سرد رات خوف اور پریشانی میں گزاری۔ ساتھ ہی ساتھ امدادی سرگرمیوں مامور کارکنوں ملبے کو ہٹانے کے کام میں مصروف ہیں تاہم کسی شخص کو زندہ بچا لینے کی امیدیں آہستہ آہستہ مدھم ہوتی جارہی ہیں۔
خیمہ بستی کے ایک رہائشی ترپن سالہ Claudio Gaudieri نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں کہا :’’ پورا شہر برباد ہو چکا ہے۔ اب شاید ہی کوئی اپنے گھر واپس جائے۔ اب وہ خوف اور بھوتوں کو گھر بن چکے ہیں۔‘‘
اس موقع پر کلاؤڈیو کی بیوی نے آبدیدہ آنکھوں سے ان کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا ’’ ہم سب کچھ کھو بیٹھے ہیں۔‘‘
امدادی کارکنوں نے تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے سے مزید لاشیں نکالی ہیں جس کے بعد مرنے والوں کی مجموعی تعداد دو سو بہتر تک پہنچ چکی ہے۔ امدادی کارکنوں کا خیال ہے کہ یہ تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔
دوسری جانب زلزلے میں ہلاک ہونے والے کئی افراد کے لوحقین اور رشتہ داروں نے اپنے اپنے طور پر مرنے والوں کی آخری رسومات ادا کیں۔ توقع کی جارہی ہے کہ قومی سطح پر جمعہ کے روز ہلاک شدگان کی آخری رسومات ادا کی جائیں گی۔
پیر کے روز آنے والے طاقتور زلزلے سے ہلاک ہونے والوں میں سولہ بچے بھی شامل ہیں جن میں سے ایک بچے کی عمر صرف پانچ ماہ تھی۔ ریکٹر اسکیل پر زلزلے کے دو جھٹکے ریکارڈ کئے گئے تھے جن کی شدت پانچ اعشاریہ آٹھ اور چھ اعشاریہ تین تھی۔
پہلے چوبیس گھنٹوں تک امدادی کارکن کسی زندہ شخص کو بچانے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ تاہم منگل کے روز ایک بیس سالہ لڑکی کو زلزلے کے بیالیس گھنٹے بعد ملبے سے زندہ نکال لیا گیا تھا۔
ایک امدادی کارکن کا کہنا تھا ’’ ہم انسان ہیں۔ بالکل ویسے انسان جیسے اس ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں تاہم بہتر گھنٹے گزر چکے ہیں اور ہماری امیدیں کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔‘‘