اٹلی میں تارکین وطن کی ملک بدری کا عمل تیز ہو گا
11 فروری 2017حکومت کی جانب سے سیاسی پناہ کی درخواستوں پر جلد فیصلوں کے ان اقدامات کی منظوری اٹلی میں موجود ہزاروں تارکین وطن کے مستقبل کا فیصلہ کر دے گی۔ یہ حکومتی اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب ایک طرف بحیرہء روم میں ریسکیو کیے جانے والے ہزاروں افراد کو اطالوی جزائر پہچانے کا سلسلہ جاری ہے اور دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں اس پر تنقید کر رہی ہیں۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران لاکھوں تارکین وطن اٹلی پہنچ چکے ہیں۔
کابینہ کے اجلاس کے بعد اپنی بات چیت میں وزیراعظم پاؤلو گینتیلونی نے کہا کہ حکام کو تارکین وطن کے بحران کے حل کے لیے زیادہ بااختیار بنانے کی بابت گفت گو ہوئی ہے۔ ’’ہمارے ملک آنے کا درست راستہ محفوظ اور محدود تعداد میں ہے۔ اسمگلروں اور انسانوں کے ٹریفیکرز کے ذریعے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کا راستہ درست نہیں۔‘‘
اطالوی وزیرانصاف آندریا اورلاندو کے مطابق سیاسی پناہ کی درخواستوں کو جلد نمٹانے کے لیے عدالت کا ایک خصوصی سیکشن قائم کیا جا رہا ہے اور یہ سیکشن صرف اور صرف اسی بابت کام کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اس بحران کے شکار شہروں کو وسائل کی کمی کا سامنا ہے اور اس کی وجہ سے جنگ زدہ اور مسلح تنازعات کے شکار علاقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو پناہ دینے کا عمل متاثر ہو رہا ہے۔
اٹلی میں سیاسی پناہ کی درخواست کی تکمیل اور فیصلے کے خلاف دو مرتبہ اپیل کی اجازت کا یہ پورا عمل قریب دو برس پر محیط ہوتا ہے۔ تاہم اطالوی وزیرداخلہ مارکو مینیتی کا کہنا ہے کہ سیاسی پناہ کی درخواستوں کو جلد نمٹانے کے لیے ڈھائی سو ماہرین کا ایک کمیشن قائم کیا جا رہا ہے، جس کے بعد یہ عرصہ بہت مختصر ہو جائے گا۔
اطالوی حکام کے مطابق ماضی قریب میں اٹلی پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن اقتصادی اور معاشی وجوہات کی بنا پر ترک وطن پر آمادہ ہوئے ہیں اور زیادہ تر افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو سیاسی پناہ ملنے کا امکان نہایت کم ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ان افراد کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد ہوتی ہیں، تو ملک بدری سے قبل ہی حکام کی نگاہوں سے اوجھل ہو کر غیرقانونی طور پر رہنے لگتے ہیں۔ تاہم نئے حکومتی اقدامات کے تحت اس معاملے کا سدباب کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔