1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اٹلی: مہاجرین کا تین منٹ کے لیے گھر والوں سے فون پر رابطہ

صائمہ حیدر
7 مارچ 2017

مسلسل گیارہ ماہ سفر کرنے کے بعد محمد اپنی والدہ کی آواز ایک بار پھر سُن سکا۔ یہ سب فلاحی تنظیم  ریڈ کراس کے ایک موبائل کیمپ کے باعث ممکن  ہوا، جو اٹلی بھر میں  مہاجرین کا فون کے ذریعے اُن کے خاندانوں سے رابطہ کرواتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2YlSa
Flüchtlinge Telefonat mit Verwandten
ریڈ کراس کا ایک موبائل کیمپ اٹلی میں مہاجرین کا اپنے گھر والوں سے فون پر رابطہ کراتا ہےتصویر: Getty Images/AFP/A.Pizzoli

اٹلی کے شمال میں وینٹی میلیا کی طرف سے سرحد عبور کرتے ہوئے ملک کے جنوبی جزیرے لامپیڈوسا میں ریڈ کراس کی سفید رنگ کی وین،  حال ہی میں اٹلی پہنچنے والے ہزاروں تارکینِ وطن کو اپنے پیاروں سے تین منٹ کے لیے فون پر رابطہ کرا چکی ہے۔ اِس وین کا آخری اسٹاپ کل بروزِ پیر اٹلی کا دارالحکومت روم تھا جہاں یہ ریڈکراس کے ایک کیمپ کے سامنے رکی تھی۔

 اس کیمپ میں  بُحیرہ روم کے پُر خطر سفر کے بعد اٹلی پہنچنے والے قریب دو سو تارکینِ وطن مقیم ہیں جہاں سے انہیں استقبالیہ مراکز  منتقل کیا جائے گا۔ کیمپ میں رضا کاروں کی جانب سے لگائی گئی میز کرسیوں میں سے ایک پر محمد نامی مہاجر  بیٹھا ہے، جس  کا تعلق افریقی ملک سینیگال سے ہے۔

 اُس کے ارد گرد بنگلہ دیش، اریٹیریا، پاکستان اور مغربی افریقہ سے ہجرت کر کے آنے والے پناہ گزینوں کی ایک بھیڑ لگی ہے۔ بعض کو تو اب تک اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں آ رہا۔ یہ سبھی اپنے رشتہ داروں سے بات کرنے کے منتظر ہیں۔ لیکن اِس میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ نیٹ ورک کے مسائل ہو سکتے ہیں یا پھر ہو سکتا ہے کہ فون کا ریسیور دوسری جانب ٹھیک طرح سے نہ رکھا گیا ہو۔ لیکن اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی کی ماں، بھائی یا کوئی پڑوسی فون اٹھاتا ہے اور پھر فاصلے اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں۔

Flüchtlinge Migranten Telefonat Telefon Smartphone Handy
 اس کیمپ میں  بُحیرہ روم کے پُر خطر سفر کے بعد اٹلی پہنچنے والے قریب دو سو تارکینِ وطن مقیم ہیںتصویر: Getty Images/AFP/A.Pizzoli

 محمد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا،’’میں نے پانچ ماہ سے اپنی والدہ سے بات نہیں کی تھی۔ جب میں نے اُن کی آواز سنی تو میرا دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا۔‘‘محمد سن 2016 اپریل میں گھر سے نکلا تھا۔ صحارا کا ریگستان عبور کرنے کے بعد جب وہ لیبیا پہنچا تو اسے یرغمال بنا لیا گیا، جہاں اسے یورپی بارڈر ایجنسی فرانٹیکس کے تحت کام کرنے والے ایک نارویجین جہاز کے ذریعے بچایا گیا۔

 محمد نے سینیگال میں اپنے گھر والوں سے فون پر اپنی بڑی بہن کا شکریہ ادا کیا، جس نے اسے یورپ کے سفر کے لیے پیسے دیے تھے۔ اُس نے اپنے دوستوں کو یورپ آنے کے لیے پُر خطر راستے اختیار کرنے سے خبر دار بھی کیا۔ محمد نے کہا،’’ وہ کبھی نہ کرنا جو میں نے کیا۔ میں نے اپنی زندگی داؤ پر لگا دی تھی۔‘‘