1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اٹلی، تیونسی ’کپتان‘ کو اٹھارہ برس کی سزائے قید

13 دسمبر 2016

اٹلی کی ایک عدالت نے تیونس کے ایک شہری کو اٹھارہ برس کی سزائے قید سنا دی ہے۔ اس پر الزام ثابت ہو گیا تھا کہ وہ گزشتہ برس اس کشتی کو پیش آنے والے حادثے میں ملوث تھا، جس کے نتیجے میں سات سو افراد مارے گئے تھے۔

https://p.dw.com/p/2UD6y
Italien Mohammed Ali Malek Kapitän Schlepperschiff Libyen
تصویر: Getty Images/AFP/Alberto Pizzoli

خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اطالوی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ تیونس کے شہری محمد علی ملک پر متعدد الزامات ثابت ہو گئے تھے۔ ملک اس کشتی کا کپتان تھا، جو گزشتہ برس بحیرہٴ روم میں حادثے کا شکار ہوئی تھی۔ اس کشتی کے حادثے کے نتیجے میں یقین ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس پر سوار کم ازکم سات سو افراد سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے۔

کشتیاں چلانے والے، مہاجر یا انسانی اسمگلر؟

بحیرہ روم میں دو اور کشتیاں غرق، ڈھائی سو تک ہلاکتوں کا خدشہ
دو روز میں دس ہزار سے زائد تارکین وطن کو ڈوبنے سے بچا لیا گیا

اطالوی شہری سسلی کی ایک عدالت کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق ملک پر الزامات ثابت ہو جانے کے بعد استغاثہ نے اٹھائیس سالہ محمد علی ملک کے لیے اٹھارہ برس سزائے قید کی سفارش کی تھی، جو جج نے قبول کر لی۔

اس مقدمے میں شامل تفتیش چھبیس سالہ شامی شہری محمود بخت کو پانچ سال سزائے قید سنائی گئی ہے۔ اس پر الزام تھا کہ وہ انسانوں کی غیرقانونی اسمگلنگ میں ملوث ہوا تھا۔ استغاثہ نے اس کے لیے چھ برس کی سزائے قید کی سفارش کی تھی۔

ان دونوں مجرموں کو فی کس نو ملین یورو کا جرمانہ ادا کرنے کا حکم بھی سنایا گیا ہے۔ مقدمے کے دوران ان دونوں نے خود کو بے قصور قرار دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ وہ بھی اس کشتی میں بطور مہاجر سوار ہوئے تھے۔ تاہم بخت نے تصدیق کی تھی کہ دراصل ملک اس کشتی کا کپتان تھا۔ ملک نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ اس کشتی کے حادثے میں زندہ بچ جانے والے افراد میں سے عملے کے کسی رکن کی نشاندہی نہیں کر سکا تھا۔

بتایا گیا ہے کہ ملک اور بخت دونوں ہی اس عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں لیکن اس دوران یہ دونوں حراست میں ہی رکھے جائیں گے۔ اس حادثے کی وجہ کشتی میں گنجائش سے زائد مسافروں کو سفر کی اجازت دینا بتائی گئی تھی۔ اٹھارہ اپریل سن دو ہزار پندرہ کو رونما ہونے والے اس حادثے کے فوری بعد اٹھائیس افراد کو بچا لیا گیا تھا جبکہ چوبیس لاشیں برآمد کر لی گئی تھیں۔

مختلف اطلاعات کے مطابق اس کشتی میں تقریباً سات سو افراد سوار تھے تاہم اس تعداد کی تصدیق نہیں ہو سکی تھی۔ اس حادثے کے بعد یورپی ممالک میں بھی تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی تھی جبکہ بحیرہٴ روم میں فعال انسانوں کے اسمگلروں کے خلاف کارروائی کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ مہاجرین کے اس تازہ بحران کے دوران مہاجرین کی ایک بڑی تعداد بحیرہٴ روم عبور کر کے افریقہ سے یورپ پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اسی دوران رونما ہونے والے متعدد حادثات میں سینکڑوں افراد لقمہٴ اجل بن چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ خستہ حال کشتیوں اور گنجائش سے زیادہ مسافروں کو کشتی میں سوار کرنا ایسے حادثات کو موجب بنتے ہیں۔

بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیاں ڈوبنے کے خوفناک مناظر