ايريزونا فائرنگ، وجہ امريکی سياست ميں نفرت بھی
10 جنوری 2011امريکی رياست ایریزونا کے شہر ٹسکن کی پوليس نے اب وہ ايمر جنسی ٹيليفون کالز جاری کر دی ہیں، جو سنيچر آٹھ جنوری کو ہونے والی فائرنگ کے دوران اُسے موصول ہوئی تھيں۔
ان کالز ميں کانگريس کی رکن گابرئيل گیفورڈز کا نام ليا گيا ہے، جن کے سر ميں گولی لگی تھی۔ اس کے بعد فون کرنے والے شخص نے سپر مارکيٹ کے سامنے فائرنگ کی اطلاع بھی دی۔
چيخ و پکار سے يہ بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ سنيچر آٹھ جنوری کو اس سپر مارکيٹ کے پارکنگ گراؤنڈ ميں کيا حالات تھے۔ اگر تين افراد ہمت نہ کرتے تو نقصان اس سے بھی زيادہ ہو سکتا تھا۔ فائرنگ سے زخمی ايک خاتون نے، نيم خودکار پستول ميں گولياں بھرنے کے دوران حملہ آور سے گوليوں کا ذخيرہ چھين ليا اور دو مردوں نے اُسے قابو ميں کر ليا۔ مجموعی طور پر 20 افراد کو گولياں لگيں، جن ميں سے چھ کی موت واقع ہو چکی ہے۔ 14 زخمیوں ميں سے صرف کانگريس کی رکن گيبريل گیفورڈز ہی ابھی تک ايمرجنسی وارڈ میں ہيں۔ وہ بيشتر وقت بے ہوشی کے عالم ميں رہنے کے بعد کل نو جنوری کو ہوش ميں آ گئيں اور اپنے معالج ڈاکٹروں سے اشاروں ميں پيغام رسانی کر سکتی تھيں۔ ڈاکٹر پيٹر ری نے کہا:
’’سر ميں گولی لگنے کے بعد زندہ بچنے کا امکان بہت کم ہوتا ہے اور ہوش ميں آجانے اور باتيں سمجھنے کا امکان تو اس سے بھی بہت کم ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اُن کی حالت اب تک اچھی ہے اور اميد ہے کہ ايسی ہی رہے گی۔‘‘
22 سالہ حملہ آور جاريڈ لوفنرکے خلاف رياست ايريزونا کے سرکاری وکيل استغاثہ نے قتل اور قتل کی کوشش کے الزام ميں مقدمہ درج کر ليا ہے اور اُسے آج 10 جنوری کو پہلی بار عدالت ميں بھی پيش کيا جائے گا۔ ملزم نے انٹرنيٹ پر جو ويڈيوز اور تحريريں شائع کی ہيں، اُن سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ذہنی انتشار کا شکار ہے۔ تاہم پورے امريکہ ميں اس پر بحث ہو رہی ہے کہ آيا اس حملے کا تعلق ملکی سياست ميں بڑھتی ہوئی نفرت اور اشتعال انگيزی کی فضا سے بھی ہے۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: امجد علی